عورت

تحریر: لالا ماجد

 سماج میں عورت کو کس نظر سے دیکھا گیا ہے۔ اور کس نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ اس سے کوئی انسان لاعلم نہیں ہوگا۔ اکثر عورت کو سماجی اور معاشی معاملوں سے الگ رکھا جاتا ہے۔ اور ہر چیز میں  مردوں کو آگے لایا گیا ہے۔ صرف اس بات کی بنا پر کے عورت مردوں سے کمزور ہیں، اور عورت کبھی کسی مرد کے شانہ بہ شانہ کھڑی نہیں ہو سکتی۔ صدیوں سے عورت پر جو ظلم ہوئے وہ بیان بھی نہیں کیے جا سکتے۔ لیکن وہ تو صدیوں کی بات ہے۔ آج اکیسویں صدی میں بھی عورت کے ساتھ چودہویں صدی کے ظلم و جبر ہو رہے ہیں۔ جن میں ریپ کرنا، رکھیل بنانا، ان کے چہرے پر تیزاب پھینکنا، بن پوچھے ان کی شادی کرانا، اور سماج سے دور رکھنا شامل ہے۔

 ہمیں ہمارے بزرگوں سے یہ سیکھنے کو ملا ہے کہ عورت گھر کی زینت ہوتی ہے۔ لہذا عورت کا باہر نکلنا خاندان کی بدنامی ثابت ہوتی ہے۔

ہم یہ تو کہہ دیتے ہیں کے عورت باہر محفوظ نہیں  لیکن یہ نہیں کہتے کے کس کی وجہ سے۔۔۔! سوال تو یہ بھی بنتا ہے کیا عورتیں بدنام ہونے کے لیے گھر سےباہر نکلتی ہیں؟ جس طرح ہم وقت کے ساتھ ساتھ خود کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ کیا عورت کو یہ حق حاصل نہیں؟ کیا وہ نہیں چاہتیں کہ وہ مردوں کے شانہ بشانہکھڑے ہوجائیں۔ ہم اپنی غلطی کے ذمہ دار بھی عورت کوٹہراتے ہیں۔ کیونکہ ہم چاہتے ہی نہیں کہ عورت ذات ہم سے مقابلہ کرسکے۔ اس لیے انہیں  قیدیبنانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ہم مذہب کا حوالہ دے کر ان کا حق مار دیتے ہیں۔ ہم عورت کو اس بات کی سزا دیتے ہیں جو اس نے کبھی کی ہی نہ ہو۔ اگر کسیلڑکی کا ریپ ہو جاتا ہے۔ تو وہاں بھی عورت زات قصوروار، اگر کسی دفتر میں عورت کے ساتھ کوئی بدتمیزی کرتا ہے۔تو ہم اسے گھر بیٹھنے کی صلاح دیتے ہیںنہ کہ اس مسئلہ کو حل کرتے ہیں۔ ایسے بہت سارے واقعے ہیں جن کے ذمہ دار مرد حضرات ہی ہوتے ہیں۔  ہمارے ذہن اس قدر منفی ہوگئے ہیں کہ ہم ہرحال میں ذمہ دار عورت کو ہی ٹہراتے ہیں۔

 جتنا میں سمجھتا ہوں ہمیں اپنی سوچ درست کرنے کی ضرورت ہے۔عورت کو کمزور کمزور کہہ کر گھر بیٹھنے کی صلاح دراصل ان کو سماج سے دور رکھنا ہی ہے۔ آج اگر ہم تھوڑا بہت عورتوں کے حوالے سے بول بھی لیتے ہیں تو یہ ہم کوئی احسان نہیں کرتے۔ یہ ہمارا فرض ہے۔ لیکن پھر وہی بات آواز عورتوں کے لئے اٹھاؤ مگر اس آواز میں عورت کی کوئی آواز ہی نہ ہو۔ آپ اپنی آواز جتنی بھی بلند کریں مگر جب تک عورت کو اپنے برابر لا کر کھڑا نہیں کرو گے آپ کی آواز نہیں سنی جائے گی۔ ہم کہیں بھی کام کرنے جاتے ہیں تو عورتوں کی بے شمار نوکریوں کا اعلان ہوتا ہے، ہم دوسروں کی بہنوں کو دعوت دیتے ہیں مگر اپنی بہنوں کو گھر تک رہنے کا حکم دے دیتے ہیں۔

حال ہی میں یونیورسٹی آف بلوچستان میں ایک ایسا واقعہ دیکھنے کو ملا جو بلوچستان میں رہنے والوں کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ تھا۔ جہاں ایک گروہ نے وہاںپڑھنے والی لڑکیوں کو ہراساں کرنے کا ایک گیم کھیلا۔ جو سات سے آٹھ سال تک چلتا رہا۔ جن میں لڑکیوں کے ہاسٹل میں خفیہ کیمرے، ان کو فیل کر کے بلیکمیل کرنا،اور اپنی ایک ایسی تنظیم بنانا جو دورہ اور سکالرشپ کا کہہ کر ان کی ویڈیوز بناتے تھے۔ اور پھر ان کو بلیک میل کرتے تھے۔ ان کا ایک ہی مقصدتھا۔ بلوچستان کی لڑکیوں کو تعلیم سے دور رکھنا۔ اور وہ کافی حد تک اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوئے۔ اس واقعہ میں سب سے حیران کن بات یہ بھی ہے کہاس گروہ میں  چند عورتیں بھی شامل تھیں۔ اس واقعے کے بعد بھی ہم نہیں سمجھےکہ عورت بھی اپنی آواز سے اپنا تحفظ کرسکتی ہے۔ لڑکیوں پر تعلیم کےدروازے بند کرانے کی یہ سازش تب کامیاب ہوئی جب وہ کچھ افراد کا گروہ آزادی سے گھومنے پھرنے لگا۔ خیر اب دیکھا جائے گا کہ یہ طمانچہ کب تک ہمیں لگتارہے گا۔

 ہم ہرچیز میں خود کو دوسروں سے ترقی یافتہ سمجھنے لگے ہیں مگر جب بات عورت کی آتی ہے تو ہم اسلام کو بنیاد بنا کر کچھ ایسا کہتے ہیں جو دین اسلام کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں کچھ ایسے بھیڑیے گھس آئے ہیں جن کا کام صرف جنسی بھوک ہوتا ہے۔ جس کے باعث لڑکیاں علم کو چھوڑ کر گھر بیٹھنے کو زیادہ ترجیح دیتی ہیں۔ اور ہمارے لگائی ہوئی اتنی پابندیاں ہوتی ہیں ان کے اوپر کے وہ کچھ بول بھی نہیں سکتیں۔ اسی طرح اگر سیاست میں بھی دیکھا جائے تو وہ بھی کچھ ایسے ہی بیان کیا جائے گا۔ مگر یہ بات ہے ہمیں جاننا اور سمجھنا ہوگا کہ ہمیں عورت ذات کو نہیں  ان عناصر کو ختم کرنا ہے جو اس طرح کی گھٹیا سوچ کے مالک ہیں۔ کیونکہ عورت کی نمائندگی کے بغیر نیا سماج جنم نہیں لے سکتا۔ عورت کے تعلیم کے بغیر یہ سماج ان پڑھ ہے۔

 ہم ہر سال 8 مارچ میں ایک دن کے لئے فیمنسٹ بن جاتے ہیں۔ مگر اس دن کے بعد کیا ہم عورت کو سماج میں وہ برابری کا مقام دے سکے ہیں جس کی وہہمیشہ سے منتظر ہیں؟  سماج میں عزت پانا ہے تو عورتوں کو ساتھ لے کر چلو، ملک کو ترقی کی راہ میں گامزن کرنا ہے تو عورتوں کو ساتھ لے کر چلو، گالی گلوچ سےپاک سیاست کرنی ہے تو عورتوں کو ساتھ لے کر چلو، اور اداروں کو مضبوط کرنا ہے تو عورتوں کو ساتھ لے کر چلو، خواہ وہ تعلیمی ادارے ہو، صحت کےادارے ہوں یا  دفتر ہو۔ سب میں عورت کی نمائندگی ہونا بے حد ضروری ہے۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہیں ہمیں ملک و قوم کو بہتر بنانا ہے یا  اسی طرح در درکی ٹھوکریں کھا کر زندگی بسر کرنا ہے۔ اور اگر بہتر سماج کو جنم دینا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کی اپنی سوچ کو مثبت کرکے عورت ذات کو ان کا حقدے۔ ہر میدان میں عورت کو موقع دیں کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں۔ ایک حالیہ واقعہ بیان کرتا ہوں جس میں ایک چھوٹا سا کردار شاید میرا بھی ہے۔ہوا کچھ ایسے جب میں گھر سے بازار کی طرف نکل رہا تھا۔ جیسے ہی میں گیٹ سے باہر آیا۔ تو میں نے کچھ عورتوں کو گزرتے دیکھا۔ جب میں اردگرد  دیکھنے لگا تواور جوان بھی اس عمل میں شریک تھے۔ اور وہ کچھ زیادہ ہی شریک تھے۔ میری نظران عورتوں پر پڑی یا میں نے جان بوجھ کر دیکھا اس بات کو بھی اگر بیانکرنے لگا، تو لوگ یہ سمجھیں گے کہ یہ اپنے آپ کو دوسروں بہتر بنا رہا ہے۔  مگر میں اپنے کو اس عمل میں  شریک سمجھتا ہوں۔ اتنے میں، میں وہاں سے گاڑیمیں بیٹھ کر بازار کی طرف نکل گیا۔ اس واقعے کو بیان کرنے کا صرف ایک ہی مقصد ہے  کہ کیا یہاں بھی ہم عورت کو قصوروار ٹھہرائیں گے؟ کیونکہ اگر دیکھاجائے تو  قصور کس کا ہے یہ بھی آپ سب کے سامنے ہے۔ مگر ہوتا کچھ ایسے ہے کہ یہی بہادر جوان اپنے گھروں میں اپنی ماں بہن کو یہی نصیحت کرتےپھرتے ہیں کہ زیادہ باہر مت نکلا کریں ماحول بہت خراب ہو گیا ہے۔ اور ماحول کس نے خراب کیا ہوا ہے  یہ بھی  سب کے سامنے ہے۔

 ایسے بہت سے واقعات ہیں جو وقت کی کمی کی وجہ سے بیان نہیں کر سکتا۔ مگر کوئی بھی ان سے لاعلم نہیں ہے۔ بس اتنا کہنا چاہتا ہوں۔ جب ہر اسٹیج میں خود کو بہتر سمجھتے ہو۔ تو خدارا عورت کو آپ نے جس اسٹیج پر رکھا ہے ان کو اپنے برابری میں کھڑا کریں۔ یہ آپ کے لئے شرمندگی کی بات نہیں ہوگی۔ بلکہ آپ اپنا حق ادا کر کے اپنی عزت میں مزید اضافہ کریں گے۔ کیوں کہ عورت کو عزت دینا ایک عزت دار مرد کی نشانی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.