مثبت سماجی کردار اور ہماری زمہ داریاں

تحریر: لالا ماجد 

انسان معاشرتی جانور کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اور اس سے آگے بڑھ کر اشرف المخلوقات کہلاتا ہے۔ اس حیوانیت سے انسانیت تک کا سفر آسان نہیں بلکہ طویل اور پیچیدہ ہے۔ یہ وہ سفر ہے جہاں سے انسان انسانیت کا عملی مظاہرہ معاشرے میں سرانجام دیتا ہے۔ کسی کے عقیدے اور نیت کا اندازہ اس کی عملی زندگی میں کردار سے ہوتا ہے۔
کردار اصل میں خود کیا ہے۔ کردار کے بہت سے معنی نکلتے ہیں۔ جیسے کہ( طرز ، طریقہ، قاعدہ، چلن، خصلت، عادت اور سیرت) کے ہیں۔
مثلًا؛ کبھی کسی خاص کام یا حالت میں ایک رول پلے کرنے کو “کردار” کہتے ہیں۔

اگر کسی کی شخصیت کے بارے میں جاننا ہوتا ہے تو ہم کسی دوسرے شخص سے اس کی شخصیت کے بارے میں جاننے لگتے ہیں۔ اگر وہ شخص مثبت جواب دینا چاہے, تو وہ یہی کہے گا کہ وہ مخلص، اچھا انسان، وقت کا پابند، اور محنتی ہے۔ اور اگر وہ منفی جواب دیں تو وہ اس کو کاہل، نافرمان، لاپرواہ اور غیر ذمہ دار بتائے گا۔

کردار ایک شخصیت کی ذہنی، جسمانی خصلت، اس کا برتاؤ، رویوں اور اوصاف کے مجموعہ کا نام ہے۔ اور اسی طرح انسان اس کی اخلاقی اقدار، احساسات، جذبات اور ظاہری و باطنی صفات سے بھی منسوب ہوتا ہے۔

اب ہم آتے ہیں اپنے اردگرد اور اپنے معاشرے کے اندر کے ہم کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں بدقسمتی سے جو بھی ترقیاتی کام ہوتے ہیں وہ صرف دکھاوے کے لیے ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے ملک میں ترقی نظر ہی نہیں آتی۔ کیونکہ اصل میں ترقی تو ہوتی ہی نہیں ہے۔ اگر یاد ہو سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں کراچی میں ایک پل کا بننے کے ساتھ کچھ ہی مہینوں میں منہدم ہو گیا تھا، سی پیک کے نام سے جو روڈ تعمیر ہوئے ہیں وہ روڈ بھی ہمارے سامنے بکھر رہے ہیں. پنجگور سے لے کر سوراب تک سی پیک کے نام سے روڈ تو بنایا گیا جہاں صرف لوگوں کو کچھ لمحے کیلئے کچھ سہانے خواب دکھائے گئے۔ اب وہ روڈ ملک میں رہنے والے تمام لوگوں کے سامنے ہیں۔ ایسے بہت سے اور بھی ترقیاتی کاموں کے کرشمات ہم دیکھ چکے ہیں۔ جن سے صرف اور صرف حکمرانوں نے اپنے جیبوں کو ہی گرم کیا گیا ہے۔ مگر ہمارا ملک اب بھی ہم سب سے یہ سوال کرتا ہے کہ ترقی کہاں ہوئی۔
کہا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں جدید ٹیکنالوجی کی کمی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے اندر ایک مغالطہ چھپا ہوا ہے۔ جب ایسے کام لائق اور تجربہ کار لوگوں کو دیئے جائیں تو وہ ٹیکنالوجی کا بہانہ کرنے سے ہٹ کر اپنے کام کو صحیح طریقے سے حل کر سکتے ہیں۔ مگر یہاں تو نااہل انجینئرز جو اصل میں انجینئرز ہوتے ہی نہیں ہیں۔ اور اس کے ذمہ دار ہمارے ٹھیکے دار بھی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے کام دیکھ کر لفظ “کرپٹ” پروان چڑھ جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں اس قسم کے مسائل اپنے مفاد اور بدعنوانی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ نہ کہ فنی عدم مہارت کی وجہ سے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں ایک بہتر سماجی ڈھانچہ بنے تو افراد و قوم کی نفسیات کی اصلاح کرنی ہوگی۔ صرف ٹیکنیکل کورس میں اضافے سے یہ مقصد حاصل کبھی بھی نہیں ہوگا۔

اسی طرح اگر ہم “قومی کردار” کی بات کریں۔ تو ایک مثال بہت مشہور ہے کہ ایک شخص یورپ کے کسی ملک میں جاتا ہے۔ وہاں ان کو ایک کارخانے میں جانے کا موقع ملتا ہے۔ کارخانہ میں بہت سے مزدور کام کر رہے ہوتے ہیں۔ جب یہ شخص کسی ایک مزدور سے مخاطب ہوتا ہے تو وہ مزدور سے بات ہی نہیں کرتا۔ جب کھانے کی گھنٹی بجتی ہے تو سارے مزدور کھانا کھانے کے لئے جاتے ہیں۔ وہ شخص پھر اسی مزدور کے پاس آتا ہے اور یہاں مزدور اس شخص سے سوال کرتا ہے کہ کیا آپ لوگ اپنے ملک میں اپنے مزدوروں کے ساتھ کام کرتے وقت باتیں کرتے ہیں؟ مزدور جواب دیتا ہے کہ میں اگر اس وقت آپ کی باتوں کا جواب دیتا تو میرے چند منٹ ضائع ہو جاتے اور اس سے کمپنی کا نقصان ہوتا۔ کمپنی کا نقصان پوری قوم کا نقصان تھا۔ اور ہم یہاں ملک کو فائدہ پہنچانے کے لیے آتے ہیں نہ کہ ملک کو نقصان دینے کے لیے آتے ہیں۔

اس خوبصورت مثال کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم قومی کردار کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں اپنے کردار کو بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ میرا کردار کس طرح کا ہے۔ جب آپ اپنے آپ کو ترقی نہیں دے سکتے ہو تو ملک و قوم میں کیا کردار ادا کرکے اسے ترقی دے پاؤگے۔

ہم اچھے اچھے اداروں سے منسلک تو ہیں مگر وہاں ہمیں کیا کردار ادا کرنا ہے اس سے سب لاعلم ہیں۔ پھر ہم اسی ادارے پر تنقید کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ادارے کے اندر ہم خود ہی کام رہے ہیں۔ اداروں پر تنقید کرنے کے بجائے اگر ہم اپنے کردار, اپنا کام، اپنی سوچ درست کریں تو کسی کے اوپر تنقید کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تنقید برائے تعمیر ہو تو بالکل صحیح، مگر ہمارے معاشرے میں تنقید برائے تنقید ہوتا ہے۔ میں جو کر رہا ہوں میں صحیح کر رہا ہوں بس آپ اپنے آپ کو صحیح کریں۔ جس سے تعمیر تو بالکل نہیں ہوتا۔ بس مسئلوں سے بھاگنے کے لیے تنقید کے اوپر تنقید آج دن تک ہمارے ملک میں چلتا آرہا ہے۔

آپ طلباء تنظیموں کی بات کریں یا پارلیمان میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی سب کا یہی حال ہے۔ سمجھ تو سب کو آگیا ہوگا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے ۔ قوم کی حالت کا انحصار ہمیشہ فرد کی حالت پر ہوتا ہے۔ کیونکہ فرد کے بننے سے ہی قوم بنتی ہیں، اور فرد کے بگڑنے سے قوم بھی بگڑ جاتی ہے۔ یہاں بھی فرد اگر اپنا کردار مثبت طریقے سے ادا کرتا ہے تو یقینا قوم کی ترقی ہوگی۔ اور اگر ہمارے کردار میں لالچ، تعصب ہو تو ترقی نہیں بربادی ہی ہوگی۔ جس کا انجام موجودہ اور آنے والی نسلیں بگتیں گے۔
ہر کوئی اپنی جگہ پر درست کام کر رہا ہوں تب ہی ایک درست اور مضبوط قوم بنا جاسکتا ہے۔

انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published.