تعلیم بھی غذا ہے

تحریر: رضوانہ بلوچ

اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے ہم احسانمند ہیں خالق کائنات کا۔ تمام مخلوقات سے افضل ہونے کی وجہ سے انسانوں میں ہر کام کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ جدید ایجادات، ٹیکنالوجی وغیرہ اور چاند پر انسان نے ہی پہلا قدم رکھا پایا۔ ان ترقیاتی کاموں کی بنیاد بیشتر اچھی تعلیم ہی ہوتی ہے۔ تعلیم ہر چیز سکھاتی ہے. تعلیم ہی انسان اور جانور میں فرق بتاتی ہے۔ تعلیم ہی ہر گھر، ہر قوم، ہر ملک کی ترقی کی ضامن ہے۔ یہی تعلیم قوموں میں ترقی کا زوال کی وجہ بنتی ہے۔ تعلیم ہمیں ایجادات اور ڈگریاں لینا نہیں سکھاتی ہے۔ تعلیم ہمیں انسان اور جانور میں فرق بتاتی ہے۔ تعلیم ہمیں تہذیب سکھاتی ہے، انسانیت سکھاتی ہے، ادب سکھاتی ہے، اخلاقیات سکھاتی ہے۔ تعلیم ہی ہمیں سکھاتی ہے کہ اپنی معاشرے اور انسانیت کا کیسے خیال رکھا جائے۔ تعلیم ہی ہمیں بتاتی ہے کہ ہماری تخلیق کیوں ہوئی ہے، ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ بھی رہتے ہیں جن کو پتا ہی نہیں تعلیم کے بارے میں۔ ان کو پتا ہی نہیں کہ ان کی تخلیق کیوں ہوئی ہے اور ہماری تخلیق کا مقصد کیا ہے؟

تعلیم کا مقصد انسانی شخصیت کو متوازن کرنا ہے. تعلیم ہی انسان کی شخصیت کو جسمانی، ذہنی، علمی، جذباتی اور دینی نشوونما دیتی ہیں۔ تعلیم خوراک کی طرح انسان کے لیے ضروری ہے، تعلیم خوراک کی طرح انسان کی نشوونما کرتی ہے. تعلیم فرد کی اس ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ اگر کسی فرد کو تعلیم میسر نہ آئے تو اس کی بے پناہ پوشیدہ صلاحیتیں دبی رہ جاتی ہیں۔ اسے بعض نامناسب اور غلط عادات پڑ جاتی ہے اس کی صلاحیتں منفی رخ اختیار کر لیتی ہے اور وہ معاشرے کے لیے نقصان دہ اور خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ تعلیم انسان کی ان تمام ضرورتوں کو پورا کر کے اس کی شخصیت میں مناسب اور مثبت تبدلیاں پیدا کر دیتی ہے. انسانی خصوصیات کو تعلیم ہی اجاگر کرسکتا ہے۔ اس لیے تعلیم ہر فرد کے لیے ضروری ہوتی ہے۔
دنیا میں ایک واحد شے تعلیم ہے جو بانٹنے سے بڑھتی ہے، ورنہ تو دنیا کی ہر شے بانٹنے سے گھٹتی ہے ماسوائے تعلیم کے. انسان کو اشرف المخلوقات کا شرف صرف اور صرف تعلیم کی وجہ سے حاصل ہے۔ اگر یہ تعلیم نہ ہوتی تو انسان اور حیوانوں میں کوئی فرق ہی باقی نہیں رہتا. تعلیم حاصل کرنے کا حق ہر مذہب دیتا ہے۔
اس جدید دور میں تعلیم حاصل کرنا بہت ضروری اور اہمیت کا حامل ہے۔ جتنے بھی ٹیکنالوجی ایجاد ہوئے ان سب کی وجہ تعلیم ہی ہے۔ یہی تعلیم ہمیں ڈاکٹری، وکالت، تیکنیک، جدید علوم وغیرہ سکھاتی ہے۔
تعلیم ایک ایسا اثاثہ ہے جو ہر قوم کو غلامی سے آذاد کردیتی ہے۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے تعلیم و تربیت میں معراج پا کر دین و دنیا میں سربلندی اور ترقی حاصل کی لیکن جب بھی مسلمان علم اور تعلیم سے دور ہوئے وہ غلام بنالیئے گئے یا پھر جب بھی انہوں نے تعلیم کے مواقعوں سے خود کو محروم کیا وہ بحیثیت قوم اپنی شناخت کھو بیٹھے۔ تعلیم ہر انسان، ہر قوم کو ایک خاص پہچان دیتی ہے۔ ترقی پانے کے لیے تعلیم لازم و ملزوم ہیں۔ کسی بھی قوم کی پہلی ترجیح تعلیم ہی ہوتی ہے، تعلیم کے بغیر ترقی و خوشحالی ممکن نہیں ہے۔

کالم نگار پروفیسر خورشید احمد کہتے ہیں “تعلیم صرف تدریسِ عام ہی کا نام نہیں ہے۔ تعلیم ایک ایسا عمل ہے، جس کے ذریعے سے ایک فرد اور ایک قوم خود آگہی حاصل کرتی ہے اور یہ عمل اس قوم کو تشکیل دینے والے افراد کے احساس و شعور کو نکھارنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ یہ نئی نسل کی وہ تعلیم و تربیت ہے جو اسے زندگی گزارنے کے طریقوں کا شعور دیتی اور اس میں زندگی کے مقاصد و فرائض کا احساس پیدا کرتی ہے۔ تعلیم ہی سے ایک قوم اپنے ثقافتی، ذہنی اور فکری ورثے کو آئندہ نسلوں تک پہنچاتی ہے اور اُن میں زندگی کے اُن مقاصد سے لگاؤ پیدا کرتی ہے، جنہیں اس نے اختیار کیا ہے۔ تعلیم ایک ذہنی، جسمانی اور اخلاقی تربیت ہے اور اس کا مقصد اونچے درجے کے ایسے تہذیب یافتہ مرد اور عورتیں پیدا کرنا ہے جو اچھے انسانوں کی حیثیت سے اور کسی ریاست میں بطور ذمے دار شہری اپنے فرائض انجام دینے کے اہل ہوں۔ ہر دور کے ممتاز ماہرینِ تعلیم کے نظریات کا مطالعہ اسی تصورِ تعلیم کا پتا دیتا ہے۔”

کسی بھی قوم کی ترقی کی وجہ صرف اور صرف شرح خواندگی ہے۔ اگر کسی قوم کو ترقی کرنا ہے تو اسے اپنے تعلیمی اداروں کو مضبوط کرنا چاہیئے۔ صرف ایک قلم ہی ایک انسان، ایک گھر، ایک معاشرے اور ایک قوم کی حالت بدل سکتی ہے۔
یہاں میں بار بار گھر،معاشرہ اور قوم کی ذکر کیوں کر رہی ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں صرف اپنے لیے تعلیم حاصل نہیں کرنی ہے. ہمیں ایک تعلیم یافتہ گھر ایک تعلیم یافتہ معاشرہ اور ایک ترقی یافتہ قوم بنانا ہے۔ کیونکہ قوم ہم ہی سے بنتا ہے جب ہم تعلیم یافتہ ہونگے تو ہماری قوم ترقی یافتہ ہوگی۔ اگر ہم تعلیم یافتہ ہونگے تو ہماری قوم ترقی یافتہ اقوام میں شمار ہوگی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.