لاوارث بلوچستان کے بےبس طلباء

تحریر:لالا ماجد

اس بات میں کوئی شک نہیں کے لاوارث بلوچستان قدرتی وسائل سے مالامال اور وسیع و عریض صوبہ ہے۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان معدنیات پر ہمارا حق پہلے بھی چھینا گیا ہے اور آج بھی چھینا جا رہا ہے۔ ہمیں جاہل اور پہاڑی لوگ کہہ کر ہم پر جو ظلم و زیادتی کیئے گئے ہیں ان کی مثالیں کہیں اور بھی نہیں ملتیں۔


جہالت کے دور سے نکلنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے۔ اور وہ ہے تعلیم حاصل کرنا۔ جو بلوچستان میں رہنے والے ہر مرد اور عورت نے حاصل کرنا چاہا۔ ترقی کے اس دور میں بلوچستان کے لوگوں نے بھی ترقی کرنے کا لگن پیدا کیا. لیکن تعلیم دشمن عناصر کو یہ بات بھی راس نہ آئی۔ اور وہ مختلف گروہوں کی شکل میں یہاں کے تعلیمی اداروں میں گھس گئے۔


یونیورسٹی آف بلوچستان کا اسکینڈل جس نے پورے بلوچستان کو حیران کردیا جو پورے بلوچستان کے منہ پر ایک بے آواز طمانچہ تھا جو پورے بلوچستان کو بہت زور سے لگا۔ لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لئے کمیٹی ضرور قائم کی گئی، مگر اس کمیٹی میں ایسا کچھ بھی دیکھنے کو نہیں ملا جس سے یہ داغ اس ادارے کے اوپر سے مٹ جاتا۔ یہ سکینڈل کرنے کے پیچھے صرف ایک ہی مقصد تھا۔ کہ بلوچستان کی عورتوں کو تعلیم سے دور رکھا جائے۔ اور گھروں تک محدود کیا جائے۔


حال ہی میں بولان میڈیکل کالج کے طلباء اپنے حق کے لیے پرامن احتجاج کر رہے تھے تو ایک مرتبہ پھر تعلیم دشمن عناصر نازل ہوگئے۔ اور طلباء کو گرفتار کرنے کا سلسلہ شروع کیا جس پر بلوچستان حکومت کی خاموشی نے اپنی نااہلی کا ثبوت بھی ظاہر کر دیا۔ وزیر تعلیم سرداریارمحمدرند نے ہماری بہن کو یہ کہہ کر باہر نکالا کہ بلوچ عورتیں سڑکوں پر نہیں بیٹھتیں, ان کی جگہ گھروں میں ہے۔ لیکن سردار صاحب شاید یہ بھول گئے تھے کہ وہ اپنے حق کے لیے سڑکوں پر احتجاج کر رہے تھے۔ اور سردار صاحب شاید بلوچ کلچر کے حوالے سے بھی ناواقف ہیں۔ جو اس دور جدید میں بھی گھروں میں بیٹھنے کی صلاح دیتے ہیں۔ وہ شاید اپنے سرداری نظام کی بات کر رہے ہوں گے جہاں عورتوں کو گھر بیٹھنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ اس پر امن احتجاج میں ہماری بہنوں کی گرفتاری نے موجودہ حکومت کی بےبسی اور نااہلی کا ثبوت ایک مرتبہ پھر سے دے دیا ہے۔


بلوچ اور پشتون کو تعلیم سے دور رکھنے کا یہ سلسلہ صرف بلوچستان میں ہی نہیں بلکہ دوسرے صوبوں میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں بلوچ اور پشتون طلباء پر اسلامی جمیعت طلبہ کا حملہ کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں بھی یہ دہشت گرد تنظیم بلوچ اور پشتون طلبہ پر یہ ظلم کرتا رہا ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس دہشت گرد تنظیم کو کسی کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اور وہاں مظلوم بلوچ اور پشتون طلبہ کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند کردیا۔


تعلیم ہمارا بنیادی حق ہے یہ ہم سے نہ چھینا جائے۔
اس طرح ظلم زیادتی کرنے سے آپ لوگ ہم سے ہمارا بنیادی حق نہیں چھین سکتے۔ ایسے واقعات سے ہم اور بھی مضبوط ہونگے۔ حکومت بلوچستان سے صرف ایک گزارش کرتا ہوں کہ ہر وقت سیمینار کرنے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ مسئلہ حل کرنے سے ہی حل ہوتے ہیں۔ ہم بھی قوم کے مستقبل ہیں۔ ہمارے سامنے جو رکاوٹیں آپ لوگوں نے کھڑے کیئے ہیں۔ وہ دور کیئے جائے۔
بلوچستان کے طلبا زندہ تھے
بلوچستان کے طلبا زندہ ہیں
بلوچستان کے طلبہ زندہ رہیں گے

Leave a Reply

Your email address will not be published.