کرونا بحران اور نااہل حکومت

تحریر: اورنگزیب بلوچ

آدھی دنیا اس وقت کرونا وائرس کی لپیٹ میں آچکا ہے اور 136 ممالک میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تصدیق ہوچکی ہے۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق اب تک تقریباً 156٫785 افراد اس مرض سے متاثر ہوچکے ہیں جن میں 5839 اموات بھی ہوچکے ہیں۔ کرونا وائرس سے متاثرہ ممالک میں چین, اٹلی، ایران اور ساؤتھ کوریا سر فہرست ہیں جن میں متاثرہ افراد کی تعداد سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے۔


انسان سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں ترقی کی بلندیوں کو چھو لینے کے باوجود اس مرض کے سامنے اس قدر بے بس و لاچار ہے کہ نہ تو اس جان لیوا مرض کا کوئی تسلی بخش علاج دریافت کر پا رہا ہے اور نہ ہی اسے مزید پھیلنے سے روک پا رہا ہے۔ اس مرض نے پوری دنیا کو اس قدر ہیجان میں مبتلا کر دیا ہیکہ دیوالیہ ریاستیں بھی سخت سے سخت اقدامات لینے پر مجبور ہوچکی ہیں۔


ترقی یافتہ ممالک اس مرض سے سنگین نوعیت کی بربادی کا ادراک رکھتے ہوئے انسانی سماج میں ہلچل کو محدود کرنے کی جانب بڑھ رہی ہیں تا کہ اسے مزید پھیلنے سے روکھا جا سکے۔ امریکہ نے یورپ سے سفر پہ بندی آئد کردی ہے. جبکہ اٹلی نے تمام تر کمرشل سرگرمیوں پر پابندی آئد کرتے ہوئے دفاتر ، دکانیں اور کیفیز بند کردی ہیں اور محض فارمیسی اور گروسریز کھلے رکھنے کی اجازت دی ہے۔
عمان نے بھی ایک مہینے تک تمام وزٹ ویزوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔ پاکستان میں بھی تعلیمی اداروں کو 5 اپریل تک بند کرنے کا فیصلہ لیا گیا ہے اور افغان بارڈر سے تجارت مکمل روک دی گئی ہے جبکہ دوسری جانب ایران بارڈر (جو کے اس مرض سے متاثرہ ممالک میں تیسرے نمبر پر ہے ) کے ساتھ بارڈر پر صورتحال قدرے مختلف ہے۔


ایران میں ہر دس لاکھ کی آبادی میں سے 250 لوگ کرونا وائرس سے متاثر ہیں اور اب تک ایران میں 611 لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ تقریباً ہر دو دن میں 100 کے قریب ہلاکتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مگر بد قسمتی سے حکومت بلوچستان اس جان لیوا وبا کے سامنے بلکل بھی سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی اور ایران سے زائرین اور کرونا وائرس کے مریضوں کو رات کی تاریکیوں میں سمگلنگ کے مال کی طرح داخل کرا رہی ہے۔ مریضوں کیلئے کیے گئے، انتظامات ایسے ہیں کہ مرض پر قابو پانا تو بڑی دور کی بات ہے اس کے یہیں سے آگے تیزی سے پھیلنے کے خطرات زیادہ ہیں. مریضوں کے علاج کیلئے ٹینٹ لگائے گئے ہیں اور ایک ٹینٹ میں درجن سے زائد بیڈ رکھے گئے ہیں جبکہ کرونا وائرس کے مریض کو مکمل آئسولیشن میں رکھنے کے بعد اسپیشل ٹریٹمنٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔ لیکن بلوچستان میں ابھی سے میڈیکل اسٹورز پر ماسک تک میسر نہیں۔ کیونکہ اب ماسک تب ہی مارکیٹ میں لائے جائینگے جب مرض عام عوام تک پہنچ جائیگی اور ماسک 100 گنا اضافے کے ساتھ بیچنے کے قابل ہوگا. یاد رہے حال ہی میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت پر ماسک اسمگلنگ کا الزام بھی عائد ہوچکا ہے. ایسے ڈھیلے انتظامات کے باوجود بڑی بے شرمی کے ساتھ حکومت بلوچستان دعویدار ہیکہ وہ کرونا وائرس کے ساتھ نمٹنے کو تیار ہے۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق زائرین کو جو سرٹیفیکیٹ جاری کیئے گئے ہیں وہ سب جعلی نکلے ہیں


ولادیمیر لینن کے مطابق ‘جب سرمایہ دار طبقہ کو پھانسی چڑانے کا وقت آئے گا وہ سرمایہ دار خود اسکے لئے رسی بیچینگے۔’ شال کے قرنطینہ سینٹر میں 84 افراد کو منتقل کیا جاچکا ہے اور شیخ زاہد ہسپتال ، سول ہسپتال میں درجنوں کے حساب سے مریض لائے جاچکے ہیں۔ جبکہ ہزاروں کی تعداد میں زائرین کو بسوں کے زریعہ شال میں داخل ہونے کیلئے چھوڑا جا رہا ہے۔
ان میں کتنے لوگ اس وبا سے متاثر ہیں اسکی خبر کسی کو نہیں اور متاثرہ افراد جنہیں یہاں لایا جا رہا ہے انکے لئے کوئی بندوبست نہیں۔ اس طرح کے وبا کے سامنے حکومت کی جانب سے اتنی غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرنا فطری سی بات تھی کیونکہ جو اقدامات بلوچستان حکومت نے اٹھائے اگر عوام کا حقیقی نمائندہ حکومت ہوتا تو ایسے اقدام کبھی نہ اٹھائے جاتے. لیکن بلوچستان کے باسیوں کی زندگیوں کو داؤ پر لگانے میں حکومت وقت نے کوئی کثر نہیں چھوڑی ہے۔ بلوچستان کے ساتھ ہمیشہ سوتیلوں جیسا رویہ کوئی نئی بات نہیں ہے، یہاں لوگوں کی زندگیاں اتنی سستی ہیں کہ کوڑیوں کے دام بکتی ہے۔ اس لئے حکومت اس بات سے بخوبی واقف ہے کے اگر وبا پھیلے گی تو عالمی بینکوں سے خیرات ملنے کے زیادہ مواقع ہاتھ آسکتے ہیں. ایسی صورت میں حکومت بلوچستان کیونکر کسی سے پیچھے رہے. اس لئے وبا نے آنے میں کچھ دیر کردی تو حکومت بلوچستان کی بیچینی کھل کر سامنے آگئی کہ کب نئے ٹھیکوں کی دوڑ لگیں گی۔

بلوچستان کے لوگ اکیسویں صدی میں بھی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں جس میں صحت کا شعبہ بھی قابل زکر ہے. آج بھی معمولی سی بیماری کیلئے لوگ پاکستان کے دیگر بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں کیونکہ یہاں شعبہ صحت بہترین کاروبار کی حیثیت رکھتی ہے اور ڈاکٹر اعلیٰ کاروباری ہیں کیونکہ پیسے کمانے کیلئے یہ شعبہ سب سے بہترین شعبہ قرار دیا جاتا ہے. جس میں مریض سے چاہے جتنا ڈیمانڈ کیا جائے, ڈاکٹر حکومت بلوچستان کی طرح کسی کو جوابدہ نہیں اور وہ جتنا چاہے عوام کو لوٹیں۔ ایسی صورت میں اب فارمیسیز میں کورنا سے بچائو کیلئے بنیادی ضرورت کے سامان کی قلت ہوگئی ہے اور یہاں ماسک تک میڈیکل سٹور والے فراہم نہیں کر رہے. ماسک کا ایک پیکٹ 3 سے 4 ہزار تک بیچا جا رہا ہے. اس لئے میڈیکل اسٹورز والوں نے ماسک رکھنا بند کر دیا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کے کرونا جیسی عالمی وبا کو روکنے کیلئے حکمران یہاں کے عوام کی بدحال زندگیوں پر ترس کھاتے ہوئے حکومتی سطح پر سنجیدہ اقدامات لے۔
اور نہ صرف اسکولوں کو بند کیا جائے بلکہ بارڈرز کو مکمل سیل کرنے کے ساتھ ساتھ زائرین کو بھی تب تک داخل نہ ہونے دیا جائے جب تک حکومتی سطح پر مریضوں کی دیکھ بال کیلئے سنجیدہ اقدامات نہیں کیئے جاتے بصورت دیگر ان اقدامات کے ساتھ زائرین کو بلوچستان میں لانے سے نسلوں کو برباد کیا جائیگا اور مستقبل میں ہمیشہ کی طرح بلوچستان کے باسیوں کو اپنے پیاروں کو دفنانے کیلئے مشترکہ قبریں کھودنی پڑینگی. عین ممکن ہے ان قبروں میں وہ لوگ بھی ہونگے جو سرمائے کے غرض سے کرونا وائرس کو بلوچستان کے بے بس عوام پر تھوپ چکے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.