جارج جیکسن: بغاوت کی پکار

تحریر: ڈاکٹر ایچ بلوچ

یہ کتاب اس سماج کی کہانی ہے جہاں ایک انسان کا کالی چمڑی کا ہونا اور اوپر سے غریب ہونا اس پر سب سے بڑا ستم تھا. اسی بنیاد پر انہیں غلام بنایا جاتا اور وہ اپنے آقا کی ملکیت کہلاتے تھے. اور اس کا آقا اسے جب چاہتا قتل کر سکتا تھا اور جب چاتا اسے پیٹ سکتا تھا. یہ کہانی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ایک سیاہ فام انقلابی ”جارج جیکسن” کی کہانی ہے
وہ کس طرح اس غلامدارانہ نظام میں رہنے والے بھوک و افلاس کے مارے سیاہ فام جرائم کی دلدل میں پھنستے جاتے ہیں


جارج جیکسن 23 دسمبر 1941 کو امریکہ کہ ایک دیہات ہیرسبرگ میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا. جارج کو اس غلامی کے نظام نے اور پیٹ میں پھلنے والی بھوک نے جرائم پیشہ بنا دیا. وہ یہ چوریاں صرف اور صرف اپنا پیٹ بھرنے اور گرم کپڑوں کے لیے کرتا تھا. 10 جون 1970 میں گریک پبلشرز (گریگ اس پبلشر کا نام ہے جس نے جارج جیکسن سے کہا کہ وہ اپنی سوانح عمری لکھے.) کو جارج نے وضاحت کرتے ہوئے ساری داستاں ستم بیان کی جو اس پر غلامی کی حالات نے ڈھائے تھے ”میرے ماں باپ اس بات کو بالکل تسلیم نہیں کریں گے مگر میں بھوکا تھا اور دوسرے بھی سیر شکم نہ تھے. ہماری سرگرمیاں چوری کردہ خوراک سے لے کر دوسری چیزون تک ہوتی تھیں جو مجھے پسند تھیں”

یہاں تک کہ ایک ڈیپارٹمنٹل اسٹور میں چوری کرتے ہوئے جیکسن کو دو گولیاں بھی لگیں اور اسے جیل میں ڈال دیا گیا اور پھر کچھ ہی عرصے بعد جیکسن پیرول پر رہا ہوا. لیکن بد قسمتی سے جیل سے دوبارہ نکلنے کےبعد 1960 میں اٹھارہ سالہ جارج جیکسن کو ایک دفعہ پھر گیس اسٹیشن سے 70 ڈالر چوری کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور اسے کہا گیا کہ اگر وہ اپنا جرم قبول کر لیتا ہے تو اسے ہلکی سی سزا دی جائے گی, لیکن اس کے برعکس جب اس نے جرم کا اعتراف کیا تو اسے تا حیات قید کی سزا سنائی گئی اور اسے جیل میں ڈال دیا گیا. جیل میں جاتے ہی جارج جیکسن کی ملاقات مارکس, لینن,فینن اور ٹراٹسکی اینگلز اور ماو سے ہوئی اور انہوں نے سمجھو اسے اپنا لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک جرائم کی دنیا میں بھٹکا ہوا سیاہ فام نوجوان ذات و جسم و جان کی نفی کرتا ہوا ایک انقلابی بن گیا

17 اگست 1970 میں جارج جیکسن کو خبر ملی کہ اس کا سترہ سالہ بھائی جوناتھن مارا گیا ہے (جس نے ایک حکومتی آفیسر کو اغواء کیا تھا اور رہائی کے لیے ایک شرط رکھی تھی کہ جیکسن کو رہا کیا جائے. اسی کوشش میں جوناتھن مارا گیا) جو جیکسن کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھا لیکن اتنے ظلم اور ستم سہنے کے باوجود وہ قید وحشت کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بجائے جیل میں ہونے والی گوریلا تحریکوں کا سٙرکردہ بن گیا

21 اگست 1970 میں سن کوئینٹن جیل میں جیکسن اور دیگر سیاہ فام قیدیوں کو ایک سفید فام گارڈ کو قتل کرنے اور اپنے کچھ سیاہ فام ساتھیوں کو جیل سے فرار کرنے کے جھوٹے الزام میں اسے تنہا ایک سیل میں قید کرکے رکھا گیا. مگر اس کے کچھ ہی عرصے بعد جیل سے آزاد ہونے کی کوشش میں جارج جیکسن امریکی ریاستی فوجیوں کی گولیوں کی بوچھاڑ میں امر ہوکر ہمیشہ کے لیے ایک مزاحمت کی نشانی بن گیا۔ شاید وہ مکار سمجھتے تھے کہ اس نوجوان انقلابی کو مار کر ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیں گے لیکن جارج ان کے خواہشات کے برعکس تمام دنیا کے مظلوموں کی آواز بن گیا


یہ کتاب جارج جیکسن کے اپنے والدین اور ان کے وکیل کو بیجھے گئے خطوط کا مجموعہ ہے

جارج جیکسن کی ان خطوط کا مجموعہ سب سے پہلے 1970میں فرانس میں شائع ہوا. اور اس کے شائع ہونے کے بعد پریشان کن ,تلخ اور درد سے بھرے لیکن زبردست خطوط نے جمہوریت کے موٹے پردے میں چھپے ہوئے امریکی ریاست کو ننگا کر کے اس کے مکار اور استحصالانہ عزائم کو پوری دنیا کے سامنے عیاں کر دیا اور جارج پوری دنیا میں ایک مشہور انقلابی شخصیت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا

اس کتاب کی پہلی اشاعت کے دوران “جین جینیٹ” نے اصرار کیا کہ ”اس کتاب کو منشور کے طور پر ، بطور راستہ ، بغاوت کی پکار کے طور پر پڑھنا چاہئے”۔

مشہور مراکش شاعر عبدالطیف لابی نے یہ خطوط تب پڑھے جب وہ خود جیل کی قید کاٹ رہے تھے اور جیل سے چوٹنے کے بعد 1975 میں اپنی بیوی سے کہا کہ ”ایک ایسا آدمی جو بدل کر اس کا استحصال کرنے والی جدید غلامی کو للکار کر اسے ساری دنیا کے سامنے عیاں کرکے اس کے طریقہ کار کو زمین پر پٹھک کر مارا اور بدترین قسم کی آزمائش میں اپنے وقار کو قائم رکھا”

اس کتاب میں خطوط کی ترتیب 1964 سے لے کر 1971 تک ہے. جیکسن کے جیل شروع کے دنوں میں لکھے گئے خط ضائع ہوچکے تھے جنہیں بعد میں جیکسن “بے حد تلخ” کہتا ہے
اس کتاب میں موجود خطوط دو حصوں میں ہیں. اس کتاب کا پہلا حصہ جیکسن کے اس کے والد اور والدہ کو لکھے گئےخطوط پر مبنی ہے اور ان خطوط کو پڑھ کر شاید آپ کو ایسا لگے کہ وہ ایک بت سے مخاطب ہیں جس کی حساسیت کئی سالوں کی غلامی کی نظر ہوچکی تھی۔ جبکہ کتاب کا دوسرا حصہ جیکسن کے اس کے وکیل اور انجیلا ڈیوس اور گریگ پبلشرز کو لکھے گئے خطوط ہیں
جیکسن ہمیشہ اپنے والدین کو کھوستے ہوئے کہتا تھا انہوں نے اسے ایسا کچھ نہیں کیا جو اسے اس غلامی سے لڑنے میں مدد دیتے بلکہ انہوں نے وہ ساری امیدیں جو ہر انسان میں پیدا ہوتے ہیں اپنے دل میں سمیٹھے ہیں. انہوں نے جیکسن سے اس کی ساری امیدیں چھینی اور اسے اس نظام کے سامنے ایک اپاہج حالت میں چھوڑ دیا. جیکسن نے اپنے ایک بھیجے ہوئے خط میں اپنے والد کو چڑچڑے ہوئے انداز میں مخاطب کرتے ہوئے کہا جب اس کے والد نے جیکسن کے رویے اور اس کے باغی ارادوں کے بارے میں جیل وارڈن کو مطلع کیا تھا جس کی وجہ سے جیکسن کو قید تنہائی میں رکھا گیا “میں نے اپنی زندگی میں تلخ تجربات اور مشاہدات سے حاصل کیا ہوا ہر فائدہ آپ کے ساتھ بانٹا لیکن آپ نے مجھے بطور انعام پاگل آدمی کہہ کر پکارا”

جیکسن کے لیے اس کا والد ایک سیاہ فام آدمی ہے جو اپنی ساری زندگی ایک مسلسل معاشی غلامی کی حالت میں رہا اور یہ غلامی اس کے رگ رگ میں سما چکی تھی اور وہ سمجھتا تھا ان غلامی کی زنجیروں کو توڑنا ایک بڑی بے وقوفی اور سکون بھری زندگی کو تباہ کرنا ہے لیکن سکون جیسے الفاظ ایسے حالات میں کچھ بے معنی سے الفاظ لگتے ہیں شاید یہی وجہ تھی اسے جیکسن کا اس نظام کے خلاف سر اٹھانا اس کی احمقی لگتی تھی . جیکسن کا والد اپنی ساری زندگی معمولی اجرتوں پر مزدوری کرتا رہا جیکسن نے اپنے والد کو کہتے ہوئے کہا “تم نے ساری زندگی سخت محنت کی. تم نے ہمارے آقاوں کی ہر حکم کی فرمان برداری کی لیکن پھر بھی تمہارے پاس کچھ نہیں
جیکسن کو پیار اور خلوص کے اشاروں میں الزامات بھی لگانے آتے تھے۔ اس نے شروع کے خطوط میں اپنی ماں کو کھوستے ہوئے کہا کہ “میں ایسا محسوس کرتا ہوں کہ تم نے مجھے ناکام کیا مجھے یہ بھی پتا ہے کہ اس رابرٹ (جارج کے والد ) نے بھی”

▪وہ زیادہ تر اپنے والدین کو ان کے پہلے نام سے پکارتا تھا جیکسن نے 20 مارچ 1996 کو اپنی ماں کو لکھتے ہوئے کہا کہ “آپ نے مجھے یورپی بتوں اور یورپی عیسائیوں کے بارے میں بتایا آپ مجھ سے ایسی بات کب کرنے کا ارادہ رکھتی ہو جو میری مدد کرسکے. شاید آپ مجھ سے بہتر جانتی ہو اگر یہ بات نہیں تو میرے لیے یہ تسلیم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ میری ماں سچ سے اس قدر بےحس ہو سکتی ہے”. جیکسن سمجھتا تھا نوآبادکاروں نے ہمیشہ مذہب کو بطور آلہ استعمال کیا جو ایک غلام کو جھوٹی امیدیں تھما کہ ہاتھوں پر ہاتھ رکھنے کو کہتی ہے. یہ انہیں جھوٹی حفاظت دیتی ہے اور انہیں محسوس ہوتا ہے کہ مدد آرہی ہوگی. جیکسن نے اپنے ایک خط میں اپنے والدہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ “امی اگرکوئی دیوتا موجود ہے تو وہ مجھ سے نفرت کرتا ہے اور جو کچھ وہ ہمارے ساتھ کر رہا ہے مجھے اس کے خلاف مزاحمت کرنی ہے “.

جیکسن کی خواہش تھی کہ وہ امریکہ کے سفید فام حکمران طبقے کے خلاف مسلح جدوجہد کریں “وہ سمجھتا تھا عدم تشدد ایک سیاسی آئیڈیل کے طور پر ……مضحکہ خیز ہے “. لیکن یہ سب معاملات ایک نقطے پر جا کر بلیک پینتھر پارٹی (اس پارٹی کی بنیاد نیوٹن اور ایلڈرچ کیمور نے امریکہ میں ڈالی جو سرمایہ داری نظام کا تختہ الٹنے کے لیے مسلح ہونے پر یقین رکھتی تھی ) کے پارٹی پروگرام سے ساتھ ملتی تھی. بلیک پینتھر پارٹی سمجھتی تھی کہ امریکہ کے نچلے طبقے کے سیاہ فام غلام ہیں اور امریکی ریاست کی بنیاد ان سیاہ فاموں کی مسلسل غلامی پر کھڑی ہے. اور سمجھتی تھی کہ ان حالات سے صرف مسلح جدوجہد اور پرتشدد انقلاب کے ذریعے سے ہی نکلا جاسکتا ہے. جیکسن نے 17 اپریل 1970 میں اپنے وکیل کو لکھا کہ “میں ایک انتہا پسند ہوں. انتہا پر پہنچے مسئلوں کے لئے میں انتہا کے حل سوچتا ہوں” جیکسن سرمایہ داری نظام کے اوپر ایک قہر بن کر برسنا چاہتا تھا جس کی وجہ سے اس دنیا پر خوشیاں ناپید سی ہو کر رہ گئی ہیں جو اس رنگین زندگی کی سارے رنگینیاں کھا گئی ہے

جیکسن گوریلا حکمت عملی کی طرف زیادہ رحجان رکھتا تھا. جیکسن نے 21 مئی 1970 میں انجیلا ڈیوس کو خط لکھتے ہوئے کہا کہ “اگر میں جیل سے آزاد ہوتا اور کالوں کو انقلابی بنانے میں مدد کرنا چاہتا کہ کم سے کم وقت میں وہ ایک ریاست کے خلاف جنگ کا ہر اول دستہ بن جائیں تو میں اس طرح اپنا کام شروع کرتا‏ کسی نا کسی طرح اپنے ہاتھوں میں کچھ پیسا اکٹھا کرتا. بڑی خاموشی کے ساتھ کوئی سیاسی رنگ ظاہر کیے بغیر ایسے اسکول کھولتا جو ہاتھوں اور ٹانگوں سے لڑنے کی تربیت دیتے ظاہری طور پر یہ دکھاتا جیسے یہ بچوں کو گلیوں میں خراب ہونے سے بچانے کے لئے اسکول کھولے ہیں. اصل مقصد صرف کالوں کو یہ سمجھانا ہے کہ “حملہ سب سے بہتر دفاع ہے جو ہم پتہ نہیں کب سے بھول چکے ہیں

“میرا ایک چھو ٹا بھائی ہے جو بہت بہادر ہے اور اس کو میں اپنے آپ سے زیادہ پیار کرتا لیکن میں نے اسے انقلاب کے نام کر دیا ہے. پینتھر پارٹی کا نوجوان رکن ہمارا قائد اس کو گلے سے لگانا چاہیے اس کی حفاظت کرنی چاہیے ” یہ جیکسن نے فے کو لکھتے ہوئے کہا تھا

جیکسن سمجھتا تھا اس وقت کی سب سے بڑی بیماری سرمایہ داری اور اس کی ملعون مشین ہے جس میں بد عقل اور سنگدل صلاحیت موجود ہیں کہ وہ اپنے ہر چکر میں ہمارے دلوں پر کوئی نہ کوئی زخم لگا دیتی ہے. اس بیماری اور تاریخ کے سب سے بڑے لٹیرے نے جیکسن سے اس کی ساری زندگی چھین لی

جیکسن نے سختی سے اپنے آپ کو مونکش ڈسپلن میں ڈھالا تھا اور خود انقلاب کے لیے معروضی حالات لانے کے کام میں لگ گیا تھا. جیکسن روزانہ کی بنیاد پر ورزش کرتا اور کراٹے سیکھنے کی پریکٹس کرتا تھا. جیکسن کہتا ہے کہ وہ صرف راتوں کو تین گھنٹے سوتا تھا اور سارا دن اپنے سیل میں اکیلے رو کر کارل مارکس اور ولادیمیر لینن کو پڑھتا تھا لیکن وہ خصوصاً ماؤ سے زیادہ قربت رکھتا تھا
“چین میں کوئی فاقے نہیں کرتا” اس نے اپنے ہائی اسکول کے ٹیچر کو وضاحت کرتے ہوئے کہا جب چین کے خلاف اپنے نسل پرستانہ اور تعصبانہ خیالات کا اظہار کر رہا تھا “یہ اب تمہاری جہالت بول رہی ہے. پہلے شاید تم جھوٹ بول رہے تھے مگر یہ بھی ممکن ہے کہ تم یہ سمجھو کہ لوگ چین میں واقعی فاقے کرتے ہیں کیونکہ تمہارے مطابق وہ 1940 کے عشرے میں بھی اس وقت فاقے کر رہے تھے جب تم وہاں ایک فاشسٹ فوجی صنعتی ریاست کی خدمت کررہے تھے”

جیکسن اپنی نسل سے محبت کرنے کو ایک فطری عمل کہتا تھا “گلیوں کی طرح یہاں بھی سیاہ فام نسل پرستی ایک جبریہ ردعمل ہے, ایک بقا کا عمل ہے “یہ جیکسن نے 1970 کو اپنے وکیل مسز فے کو کہتے ہوئے کہا
اس کے باوجود جیکسن سیاہ فام جدوجہد کو بھی بین الاقومیت کی طرف لے جانا چاہتا تھا. اسے پتہ تھا کے دنیا کے دوسرے محکوموں سے جڑے بنا اس نظام کو نیست و نابود نہیں کیا جا سکتا

جیکسن یکتا اور ممتاز ہونے کو تسلیم نہیں کرتا تھا شاید اس لئے کہ یہ فرسوددہ سرمایہ دارانہ کلچر کے ساتھ مظبوطی سے جڑا ہے. سماجی نقطہ نظر کے طور پر جیکسن مردوں کو سپارٹن سمجھتا تھا اور عورتوں کو ان کی فرمان بردار “عورت مردوں کا ان پر غالب ہونا پسند کرتی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ انہیں مظبوط بازوں سے پیار کیا جائے اور انہیں ایک نگران کی ضرورت ہے کیونکہ وہ کمزور ہے “یہ جیکسن نے رابرٹ کو 1967میں لکھا “اور اس وجہ سے ہمیں انہیں کسی بھی معاملے پر ان کی رائے کا اظہار کرنے نہیں چھوڑنا چاہیے انہیں صرف سننا چاہیے اور سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے “

جیکسن کتنے خواب, کتنے خواہشات بس دل میں ہی لے کر چلا گیا لیکن ہر مظوم اپنے دل میں ان سب کو سمیٹے ہوئے ہے۔ اگر کوئی مظلوم آزادی کی اڑان بھرنا چاہیں تو جیکسن کے افکار اس کے پر بنیں, اگر کوئی بے سہارا ہو تو جیکسن کے خواب اسے چٹان بن کر اسں کی زندگی کو مقصد دینگے
جیکسن سمجھتا تھا کے انسان تب ہی مکمل ہے جب وہ انسانیت کے دشمن کے خلاف مزاحمت کریں. آئیے جیکسن کی پکار کو سنیں اور مکمل انسان ہونے کا فخر سے دعویدار بن جائیں

Leave a Reply

Your email address will not be published.