بی بی سکینہ اور کہانی گھر گھر کی

تحریر: لالا ماجد

بی بی سکینہ اپنے دونوں بیٹوں اور ایک بیٹی کے ساتھ پورے محلے میں مٹھایاں تقسیم کرنے لگیں۔ بہرام جو سب سے بڑا بھائی تھا اب ہر مہینے پندرہ ہھزار اپنے گھر لا سکتا تھا کیونکہ بہرام کو مالی کی نوکری مل گئی تھی۔ ماہ ناز اس وقت صرف سات سال کی تھی اور سب کی لاڈلی بھی تو وہ بہرام سے فرمائشیں کرنے لگی اور بہرام اس کی ہر فرمائش پر لبیک کرتا گیا ایک دن درویش جو بہرام سے چار سال چھوٹا تھا اور ایک دودھ والے کے پاس کام کرتا تھا اس نے بہرام سے پوچھا کہ لالا اب ہمارے حالات پہلے سے بہتر ہیں اور دیکھو ماں اور وہ پاگل ماہو کتنے خوش ہیں۔ یہ سن کر بہرام بولا درویش خوش رہو بس اور سب آہستہ آہستہ ٹھیک ہوگا۔

جمعہ کی رات تھی بی بی سکینہ نے دسترخواں لگایا، درویش اور ماہو نے پلیٹیں اور ایک جگ پانی لاکر دسترخواں کے پاس رکھا اور بیٹھ گئے۔ بی بی سکینہ ایک پلیٹ میں سالن ڈالنے لگیں تو ماہو مسکرا کر بولی کہ امی گوشت مجھے بہت پسند ہے اب ماہو کچھ بولے اور درویش جواب نہ دے یہ ناممکن تھا درویش نے مزاحیہ لہجے سے کہا ماہو اب تو روز گوشت ہوگا، بی بی سکینہ اور بہرام یہ سن کر ہنسنے لگے اور بہرام نے کہا اب کھانا کھاؤ ورنہ شیطان سب کھا جائے گا۔ سب نے کھانا کھایا، ماہو اور درویش سونے کیلئے گئے اور بہرام نے دسترخوان باورچی میں رکھا۔ بی بی سکینہ نے بہرام سے مخاطب ہو کر کہا کہ “بہرام ذرا میرے پاس آئیں۔” بہرام نے کہا “جی امی جان آتا ہوں۔” بی بی سکینہ بہرام سے بولی “بیٹا ہر مہینے اپنے تنخواہ سے دو یا تین ہزار الگ رکھ دیا کریں تاکہ آپ کی شادی کا غم بھی دور ہوسکے۔” بہرام مسکرا کر بولا “جی امی جان رکھ دیا کرونگا۔”

اگلے دن جب بہرام ڈیوٹی کے لیے نکلا تو اس کے ساتھ ساتھ درویش بھی کام کرنے کے لیے نکل گیا، ماہو بھی تیار ہو کر ہمسایوں کے پاس سپارہ پڑھنے چلی گئی اور بی بی سکینہ گھر میں بیٹھ کر بہرام کی شادی کے کپڑے سینے لگیں۔ دن کو نہ بہرام گھر آتا تھا نہ درویش، دن کا کھانا بی بی سکینہ اور ماہو اکیلے ہی کھاتے تھے۔

شام کا وقت تھا جب درویش گھر آیا توماہو درویش کی طرف دوڑنے لگی۔ درویش نے ماہو کو کچھ ٹافیاں دیں جس سے ماہو بہت خوش ہوی۔ بی بی سکینہ نے درویش سے کہا “بیٹا آج بہرام نے دیر نہیں کردی؟” درویش بنے جوب دیا “امی جان آتا ہی ہوگا۔” لیکن جیسے ہی وقت گزرتا گیا بی بی درویش سے پھر پوچھنے لگیں “بیٹا معلوم تو کرکے آؤ” جب درویش باہر جانے کے لئے گیٹ کے پاس پہنچنا تو دیکھا کے کچھ لوگ بہرام کی لاش لے کر گیٹ کے پاس کھڑے تھے ۔ درویش یہ سب دیکھ کر بالکل سن ہوگیا اور کچھ پوچھنے سے قاصر رہا، بی بی سکینہ دور سے گیٹ کی طرف دیکھ رہی تھیں کہ یہ سب کون ہیں۔ درویش نے گیٹ کھولا اور اپنی ماں کے پاس آنے لگا درویش نے اپنی ماں سے کہا امی دیکھو بہرام آگیا ہے مگر خاموش ہے مگر بی بی سکینہ کچھ بھی نہ بولی اور بہرام کو دیکھنے لگیں جو خون سے نہلا دیا گیا تھا۔ درویش اپنی امی جان کو دیکھ کر رونے لگا اور ان کے پڑوسی ماہو کو لے کر اپنے گھر چلے گئے۔ یہ شام بی بی سکینہ کیلئے قیامت سے کم نہیں تھا۔ درویش بار بار اپنی امی سے کہنے لگا کہ امی آپ روتی کیوں نہیں ہیں؟ مگر بی بی سکینہ نہ روتی تھیں نہ بات کرتی تھیں ۔ اگلے دن جب ماہو کو بہرام کا دیدار کرنے لایا گیا تو ماہو نے یہ سب منظر دیکھ کر رونے کی انتہا کردی درویش نے ماہو کو گلے لگا کر کہا گودی جاؤ امی کے پاس بیٹھ جاؤ۔ بی بی سکینہ اور درویش کے دل کا حال اللہ ہی جانتا تھا کہ ان کے اوپر کیا بیت رہی ہے اب ان کے گھر کا حال کچھ اس طرح تھا کہ بی بی سکینہ خود بستر سے نہیں اٹھ سکتی تھیں اور ماہو بس امی کے پاس بیٹھ کر روتی تھی۔ درویش یہ سب دیکھ کر پاگل ہونے لگا تھا کیونکے وہ امی کا اس طرح خاموش ہونا اور ماہو کا اس طرح رونا نہیں دیکھ سکتا تھا جب درویش کو معلوم ہوا کہ بہرام کو ان ظالموں نے مارا ہے جو اس سے پہلے بہت ساروں کو مار چکے ہیں تو درویش کے دل میں ایک ڈر سا پھیل گیا اور درویش کو بس امی اور ماہو کی فکر ہونےلگی۔

اس حادثے کے 17 دن بعد جب درویش بازار کسی کام سے گیا مگر پھر وہ واپس گھر نہیں آسکا بی بی سکینہ اپنی فریاد لے کر پڑوسیوں کے پاس گئیں کہ جاؤ میرے درویش کو بازار سے لے آؤ, وہ گھر نہیں آرہا مگر بی بی کی فریاد کا کوئی جواب نہ دے سکا کیونکہ کوئی کچھ نہیں کر سکتا تھا بی بی اپنے گھر آئی اور ماہو کو گلے لگا کر اس قدر رونے لگی کہ یہ منظر کسی ظالم کو بھی رحم دل بنا سکتا تھا۔

مگر اس کے تین دن بعد ہی درویش کی لاش کو پہاڑوں پر دیکھا گیا جب درویش کو اس کے گھر لایا گیا تو بی بی سکینہ پاگل ہو چکی تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ درویش بازار گیا ہے وہ اب آئے گا۔ ایک خوشحال گھر جن کے ہزاروں سپنے تھے سب تباہ ہوگیا ایک پھول جیسی ماہو ساتھ سال کی عمر میں اکیلی پڑ گئی، بی بی سکینہ کو ایک مہینے کے اندر دو جوان بیٹوں کی لاش دے کر پاگل بنا دیا گیا، اب بی بی سکینہ ہر جوان کو دیکھ بہرام اور درویش کے نام سے پکارتی ہے اور پھول جیسی ماہو اب کچھ نہیں مانگتی نہ ہی اب مذاق کرتی ہے اور بی بی آج بھی قیامت اور اپنے مرنے کا انتظار کر رہی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.