انسان, وجود اور مقصد حیات

تحریر: رضوانہ بلوچ 

ذندگی ایک وجود کا نام ہے ہر انسان ایک وجود رکھتا ہے۔
اس دنیا میں کوئی وجود بیکار نہیں ہے جو انسان وجود رکھتا ہے تو اس میں ضرور کوئی نہ کوئی خاص کام کرنے کی قابلیت ہوتی ہے۔ کوئی وجود بے کار نہیں یہ ہم پہ انحصار کرتا ہے کہ ہم اسے بےکار بنائیں یا کار آمد۔۔۔ ہر وجود کا اپنا ایک الگ نظریہ ہوتا ہے, ہر نظریہ ایک مکمل سوچ ہے اور ہر سوچ ایک مکمل شخصیت بناتا ہے۔

انسان کی شخصیت کے دو پہلو ہیں۔ ایک اس کا ظاہر اور دوسرا اس کا باطن۔ انسان کا ظاہر وہ ہے جو دوسرے لوگوں کو واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اس میں اس کی ظاہری رویے شامل ہیں۔ باطن میں انسان کی عقل، علم، جذبات، احساسات اور رجحانات شامل ہیں۔ عام طور پر انسانوں کا ظاہر ان کے باطن ہی کا عکس ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض صفات مستقل نوعیت کی ہوتی ہیں جبکہ کچھ کیفیات عارضی نوعیت کی۔ انسان کی مستقل صفات وہ ہوتی ہیں جو ایک طویل عرصے تک ہوتی ہیں اور ان میں تبدیلیاں بہت آہستہ آہستہ آتی ہیں۔ یہ صفات انسان کی پوری عمر اس کے ساتھ رہتی ہیں۔ مثلاً انسان کی علمی و عقلی سطح ایک طویل عرصے میں ہی بلند ہوتی ہے اور اس میں تبدیلی کی رفتار کو سالوں میں ناپا جاتا ہے۔ اس کے برعکس انسان کی خوشی یا غمی ایک عارضی کیفیت ہے جو ہر تھوڑی دیر کے بعد بدل جاتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ایک لمحے خوش ہو لیکن اگلے لمحے ہی غمگین ہو گیا ہو۔ انسان کی مستقل صفات اس کی عارضی کیفیتوں پر اثر انداز ہوتی رہتی ہیں۔ اگر انسان اپنی عارضی کیفیتوں میں بھی ایک مخصوص رویہ اختیار کرنے لگ جائے تو یہ بھی اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔ مثلاً ایک شخص اگر بات بات پر بھڑک اٹھتا ہو تو سب لوگ اس کی شخصیت کے تصور میں اس کا غصہ ور ہونا بھی شامل کر دیتے ہیں۔

انسانی شخصیت کو ایک مختصر فہرست میں ایسے بھی بیان کیا جاسکتا ہے۔

• ذہانت
• قوت برداشت
• ذہنی پختگی
• صبر و شکر
• خود انحصاری یا دوسروں پر انحصار
• طرز فکر
• خود غرضی
• فطری رجحان
• قائدانہ صلاحیتیں
• تخلیقی صلاحیتیں
• عادات
• انتہا پسندی
• خوشی و غمی
• احساس ذمہ داری
• قانون کی پاسداری
• قوت ارادی او رخود اعتمادی
• ظاہری شکل و شباہت اور جسمانی صحت
• بہادری
• چستی
• انصاف پسندی
• ایثار
• کامیابی کی لگن
• احساس برتری یا کمتری
• بخل و سخاوت
• خوش اخلاقی
• لالچ اور قناعت
• فنی اور پیشہ ورانہ مہارت
• جوش و ولولہ
• ابلاغ کی صلاحیتیں
• جنسی جذبہ
• اپنے ارد گرد کی چیزوں کے بارے میں رویہ
• غصہ
• خطرات کے بارے میں رویہ
• مایوسی و تشویش کی صورت میں رویہ
• پسندیدگی اور ناپسندیدگی
• جذبات و احساسات کا طریق اظہار
• محبت و نفرت
• غیبت
• اخلاص
• خوف
• حیرت و تجسس •ترجیحات

انسانی تحریر اور اس کی گفتگو سے انسان کی شخصیت کے بارے معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں کہ وہ کیا ہے، وہ کون ہے، وہ کیسی سوچ کا مالک ہے، وہ کیسے جذبات رکھتا ہے کہ اس کا وجود انسانیت کے لئے فائدہ مند ہے یا اس کو نقصان پہنچا سکتا ہے، اس کی سوچ اور جذبات منفی ہیں یا مثبت ہیں۔ اگر منفی ہیں تو اس کا مطلب ہے معاشرے کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ منفی جذبات کسی بھی انسان یا قانون کی پاسداری نہیں کرتے ہیں۔ جس میں مثبت جذبات پائے جاتے ہیں اس سے معاشرہ کو فائدہ ہی فائدہ ہوتا ہے. ایسی شخصیت کے مالک نیک خیالات رکھتے ہیں، بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، ایسے لوگ انسانوں کے دلوں پر راج کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے، ان کی باتوں میں اتنی قوت ہوتی ہے کہ ہر کوئی ان کی نظریات کی طرف مائل ہوتا ہے۔ ایسے مثبت سوچ کے شخصیت معاشرے میں کسی مسیحا سے کم نہیں ہوتے۔
ہر شخص کا کوئی مقصد حیات ہوتا ہے جس کو پانے کے لئے سیدھے راستے کی تلاش کی ضرورت ہوتی ہے جس نے اسے پا لیا، اس نے سب پا لیا. پیدائش اور موت کے درمیان جو عرصہ بنتا ہے وہ انسانی زندگی کہلاتی ہے۔ اس عرصہ کو گزار کر اس جہان فانی کو ایک دن چھوڑ جانا ہوتا ہے۔ اسی مہلت کے اندر ہی رہ کر مقصد حیات کی تلاش کی جا سکتی ہے۔ مقصد حیات کو پانے کے سب سے پہلے اپنے آپ کو پہچاننے کی ضرورت ہے، مطلب یہ ہےکہ انسانی دماغ ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے یعنی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ نہ کچھ ضرورت کے مطابق ایجاد کر لیتا ہے اس میں اتنی صلاحیت ہوتی ہے۔ یعنی ہمارے دماغ سے ہی خیالات جنم لیتے ہیں اور جب مختلف دماغ کے خیالات کا مختلف اجتماعوں میں بحث ہوتی ہے تو وہ ایک نظریہ کی صورت اختیار کرلیتے ہیں ۔
انسان کے پاس وقت محدود ہے جبکہ اس کی زندگی کے مقاصد لامحدود ہوتے ہیں ۔ پھر بعض مقاصد زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور بعض کم۔ بعض کو بعض پر ترجیح دینی پڑتی ہے کیونکہ محدود وقت میں خاص کاموں کو پہلے کرنا ہوتا ہے۔ وقت کے دائرہ کے اندر ہی رہ کر زیادہ سے زیادہ مقاصدحاصل کرنے کی ایک کوشش ہوتی ہے۔ ایسی کوشش میں سب سے پہلے اہم ترین مقاصد کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ انتخاب کا فیصلہ ایک خاص اہمیت اختیار کرتا ہے یہی زندگی کے مختلف پہلو پر اثرانداز ہوتا ہے اس سے سوچنے کا انداز جنم لیتا ہے۔ اسی سے شوق اور لگن پیدا ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں شاعر، ادیب، سیاستدان، مفکر، اداکار، ڈرامہ نگار، موسیقار، مولوی، فقیر، درویش، اداکار، اور افسر پیدا ہوتے ہیں۔ جو کہ کسی نہ کسی سوسائٹی کا حصہ بنتے ہیں۔ ہر سوسائٹی کا ایک نقطہ نظر بننا شروع ہوتا ہے جو نظریہ کو تشکیل دیتا ہے۔ جس سے منفی اور مثبت طاقتیں جنم لیتی ہیں۔

یہ ایک پورا ایک سوچ بنتا ہے، سوچ سے انسانی رویہ میں تبدیلی آتی ہے جو انقلابی رحجان پیدا کرتی ہے جس کا معاشرہ سے بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ جب ایک انسان دوسرے انسان سے ملتا ہے تو سوچوں کا آپس میں تبادلہ ہوتا ہے. مطلب کہ (ملاقاتوں سے سوچوں کا تبادلہ ہوتا ہے) جس کے نتیجہ میں مثبت اور منفی سوچیں بنتی ہیں۔ زندگی میں جو بھی رویہ انسان اختیار کرتا ہے اس سے اس کا سوچنے کا انداز اور اس سے ہی اس کی پہچان بنتی ہے۔ تو اس پہچان سے ہی دنیا میں انسان اپنا مقام بناتا ہے۔ اگر انسانیت کے بارے میں اچھا جذبہ ہو اور اپنی خواہشات پر جبر کرنے کی عادت ہو تو ذہنی سکون اور تسکین قلب میسر ہوتا ہے۔ شخصیت کے بدولت جذبات جنم لیتے ہیں اور ان کا تعلق دماغ سے ہوتا ہے پھر ان کے ذریعہ انسانی سوچ پیدا ہوتی ہے یہ مثبت یا منفی بھی ہو سکتی ہیں. اگر مثبت سوچ کی قوت منفی سوچ سے زیادہ ہو تو سمجھ لو یہ شخصیت سیدھے راستے پر چلنے کا رحجان رکھتی ہے۔ اس کے برعکس منفی جذبات سکون قلب میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں اور ہمیشہ ڈیپریشن، پریشانی اور فائدہ کی بجائے نقصان کی طرف لے جاتے ہیں۔

دنیا ایک بڑا مسافرخانہ ہے۔ حقیقت میں یہ مسافر خانہ ایک بین الاقوامی یونیورسٹی کا درجہ رکھتا ہے. یہاں سے انسانی فطرت کے بارے میں مختلف تجربات کا مشاہدہ ہوتا ہے جو کہ زندگی میں تبدیلی کا باعث بنتا ہے، ایک نئی امنگ پیدا ہوتی ہے جس سے زندگی میں سوچنے کا انداز بدل جاتا ہے اور نیا راستہ مل جاتا ہے جس پر چل کر ایک خاص لذت محسوس ہوتی ہے۔ دل تسکین جیسی چیز سے لطف اندوز ہو جاتا ہے اور انسان مست ہو کر زندگی کے مصائب سے بے نیاز اپنے مقصد کی طرف خوشی خوشی بڑھتا چلا جاتا ہے اور آخر کار اپنی منزل کو پا لیتا ہے۔
دنیا میں ہر شخص اپنا شخصیت خود بنا تا ہے۔ معاشرے میں جتنی ذیادہ شخصیت پیدا ہونگے وہ معاشرہ اتنا ہی ذیادہ ترقی کرئے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.