میرے نوجوان نسل کی سوچ کو سلام

تحریر: سازین بلوچ

کہتے ہیں انسان تو ہر دن پیدا ہوتے ہیں لیکن انسانیت کبھی کبھی پیدا ہوتی ہے. اب سوال یہ ہے کے انسان اور انسانیت میں کیا فرق ہے؟ چونکہ دیکھنے میں دونوں الفاظ ایک جیسے لگتے ہیں. انسان وہ ہیں جو صرف اپنا سوچے اور اس کے لئے خود سے زیادہ اہم کوئی بھی نہیں ہو وہ ظلم دیکھتا تو ہے لیکن اس کے خلاف نہیں بولتا. اسے اپنے علاوہ سب فضول لگتے ہیں اس کے ذہن میں “ہم” جیسے الفاظ کبھی نہیں آتے وہ ہمیشہ “میں میں” کرتا رہتا ہے. اور انسان مردہ ہو یا زندہ کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ اس کا ضمیر ہی جب مر چکا ہو تو خالی ڈھانچہ اس اسپتال کے مانند ہے جہاں سہولیات تو موجود ہیں لیکن علاج کرنے والا کوئی نہیں ہے

انسانیت اسکا بلکل الٹ ہے انسانیت میں “میں” والا لفظ بلکل قابل قبول نہیں ہیں. انسانیت کا مطلب اپنے ارد گرد کے لوگوں کا درد بانٹنا انکے درد و غم اور خوشی سب کو اپنا سمجھنا یہ ہے انسانیت

انسانیت کا کسی مذہب یا کسی بھی ذات سے کوئی تعلق نہیں ہے. انسانیت کا تعلق انسانوں سے ہے. اس دور میں خالی دماغ انسان اربوں کی تعداد میں زندہ ہیں لیکن اسی دور میں ہی ہمارے کچھ محنتی نوجوان بھی ہے جن میں انسانیت ہے اور وہ انسانیت کا درس دیا کرتے ہیں
وہ مذہب کو پرے رکھ کر سوچتے ہیں. انکا کام بس انسانیت کی مدد کرنا, وہ گھر سے نکلتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ مجھے صرف ہندووں کی مدد کرنی ہے یا مسلمان ،عیسائی یا سکھ کی مدد کرنا ہے بلکہ وہ گھر سے یہ سوچ کر نکلتے ہیں کہ ہمیں صرف انسانیت کو بچانا ہے. انسانیت کی مدد کرنی ہے. ہمارا کسی مذہب یا کسی فرقے سے کوئی واسطہ نہیں

دنیا میں یہ “کرونا” کوئی پہلی یا انوکھا وباء نہیں ہے بلکہ ہر سو سال بعد ایسے وباء آتے رہتے ہیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اس وباء کے دوران انسان کسی کام کا نہیں رہا. جب اس میں انسانیت نہ ہو کیوں کے انسان صرف خود کو بچاتا ہے اور اسی چکر میں شاید خود کو بھی نہ بچا پائے
لیکن “کرونا” جیسے وباء کے بعد دنیا میں جتنے بھی سختیاں سامنے آئے ہیں بھوک و افلاس جیسے سختیوں کا ہمیشہ انسانیت نے ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے
اسی طرح آج بھی “ایف آر فاونڈیشن” شہید میر حاصل رند فاونڈیشن”بلوچ فاونڈیشن” میر ڈیل” شاہ میر فاونڈیشن”الخدمت فاونڈیشن” کراچی تینکرز فورم” کراچی کرونا فوڈ ڈرایئب” ریئزینگ یوتھ آف بلوچستان” جی ڈی سی فاونڈیشن” ٹرانس کمیونیٹی اور ان جیسے بہت سارے فاونڈیشنز اور بہت سے انسان دوست تنظیمیں یا زاتی طور پے انسانیت کے لئے کام کرنے والے نوجوان اپنے ضمیروں کو مطمیئن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں

کوئی غریب گھرانوں تک راشن پہنچا کے اپنا فرض نبھا رہا ہے تو کوئی آگاہی پروگرام کروا کے اپنا فرض نبھا رہا ہے تو کہیں ہمارے جانباز ڈاکٹرز اپنے جانوں کی پرواہ کیئے بغیر دن رات قوم کی خدمت پہ لگے ہیں

نوجوان نسل وہ طاقت ہیں جو اگر کوئی کام دل سے کرنے کا ارادہ رکھے تو اسے کوئی بھی مشکل اپنے ارادے سے نہیں روک سکتا
اس نازک حال میں بہت سے بے ضمیر انسان اپنا منہ چپھائے پہر رہے ہیں لیکن ہمارے بہادر نوجوان قوم کے غریبوں تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کو انکی ضرورت ہو. کچھ ایسی تنظیمیں ہیں جو طالب علموں نے خود اپنے ہی محنت اور اپنے بلبوتے سے ہی انکی شروعات کی تھی اور آج وہ بہت سے گھروں تک پہنچ چکے ہیں اور بہت سے گھر انکے امید میں بیھٹے ہوئے ہیں میں ان سب نوجوانوں کی جدوجہد اور انسانیت کو سلام پیش کرتی ہوں. اور انکو ہمیشہ یہ بتانا چاہونگی کہ تنقید ننانوے لوگ بھی کریں اور ساتھ ایک بھی ہو تب بھی پیچے نہیں ہٹنا کیوں کے کیا پتہ کتنے معصوم بچے اس امید پے بیھٹے ہو کے آج کوئی انکل ہمیں کھانا دینے آئیگا

مصیبتیں چٹان ہو اور راستہ کنکر سے بھرا ہو, پھر بھی یہ حوصلہ ہو کہ میں ان پتھروں کو اپنے مقصد کے لئے ضرور پیچھے چھوڑ دونگا کیوں انسان بغیر مقصد کے زندہ رہ نہیں سکتا اور مقصد کو جو لوگ بیچ راستے پے چھوڑ دیتے ہیں تو صرف وہ مقصد ہی نہیں بلکہ اس سے جڑے ہوئے ہر چیز تم سے نفرت کرنے لگے گی اور تمہارا ضمیر بھی تمہارا ساتھ چھوڑ دیگا

Leave a Reply

Your email address will not be published.