نوآبادیاتی نظام کی موجودگی

تحریر: عاصم سجاد اختر

انگریزی سے ترجمہ: فرید مینگل

بشکریہ: حال احوال

اسلام آباد ھاٸی کورٹ کی جانب سے سامنے آنے والا فیصلہ، اڈیالہ جیل میں بغاوت کے مقدمے میں گرفتار ترقی پسند سیاسی کارکنوں، سول سوساٸٹی اور جمہوریت پسندوں کے لیے ایک اہم اور نمایاں فتح ہے جو کہ پی ٹی ایم ( پشتون تحفظ موومنٹ ) کے رہنما منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف ایک پرامن احتجاج پر بغاوت کے مقدمے میں گرفتار کیے گٸے تھے۔ تین دن بعد لاھور ھاٸی کورٹ نے عالمگیر وزیر کو ضمانت پر رہا کرنے سے انکار کر دیا جو کہ پچھلے نومبر میں طلبا یکجہتی مارچ لاہور میں ایک تقریر کرنے پر گرفتار کیے گٸے تھے۔

یہ تقریباً ناممکن سی بات ہے کہ ایک اعلٰی عدالت میں ہونے والا واضح و دوٹوک فیصلہ، ایسے مقدموں میں دوسری اعلٰی عدالت پر اثراندار نہ ہو۔ یہ سچ ہے کہ اس ملک میں عام لوگوں کی ایک بڑی اکثریت نچلے سطح پر تھانہ اور کچہری نظام کی بے رحمانہ تسلط و جبر کا شکار ہے۔ بلوچستان اور سابقہ فاٹا میں تو عسکری اہلکاروں کے ھاتھوں بھی ان کا یہی حال ہے۔ پھر ایک ”فیصلہ نامہ“ نا انصافی کے اس طویل تسلسل میں تو محض ایک عام سی بات ہے۔

ریاستی جارحیت اور دوسری ردعمل قوتوں کو للکارنے والے ترقی پسند آوازوں کے خلاف دباٶ و تسخیر موجودہ لہر کے سلسلے کی اس سماج میں طویل تاریخ ہے، جیسا کہ اسلام آباد ھاٸی کورٹ کے جج کے توجہ میں بھی یہ بات آٸی کہ بغاوت کا قانون نوآبادیاتی جڑیں رکھتا ہے۔ بہت مشہور ہے کہ گاندھی کو بھی ھفت روزہ ”ینگ انڈیا“ میں سیاسی طورپر حساس تحریریں لکھنے کی جرم میں 1922 میں اسی قانون کے تحت 6 سال کی سزا سناٸی گٸی تھی۔

پاکستان کے 1947 کے بعد کی تاریخ بھی ایسی نامور شخصیات کے خلاف مقدموں سے بھرا پڑا ہے۔ جن میں سے بہت سوں کو ”سازشی“ لقب کے ساتھ درج کیا گیا۔ دو تو مخصوص و مشہور ہیں۔ پہلا 1951 میں راولپنڈی سازش کیس جس میں فیض احمد فیض کو پھنسایا گیا تھا۔ اور دوسرا حیدرآباد سازش کیس، جس میں نیشنل عوامی پارٹی کے بلوچ و پشتون قیادت بشمول ولی خان، خیر بخش مری، غوث بخش بزنجو، اور عطا اللہ مینگل کو گرفتار کیا گیا تھا۔

یہاں رسمی آزادی کے بعد بھی آزادی کی تحریک چلتی رہی۔ ہماری اپنی اسٹیبلشمنٹ جس نے برطانیہ کی جگہ لی، نے محکوم طبقات، لسانی گروہوں اور مذھبی اقلیتوں کےلیے آواز اٹھانے پر لوگوں کو مجرم قرار دیا۔

ایسی صورت میں ایشیا اور افریقہ کے دیگر حصوں کی طرح نوآبادیاتی نظام یہاں بھی موجود ہے۔ ماضی کی طرح موجودہ ریاستی جبر کے لہر کو بھی سماج کے ایک مخصوص پرت کی حمایت حاصل ہے. دوسری جانب مرکزی میڈیا بھی مختلف نقطہ نظر کو سامنے لانے کی اجازت نہیں دے رہا۔ اور پھر ملتزم ریاستی سرپرستی میں کیے جانے والے ”ٹرولنگ“ یہ دکھاتے ہیں کہ نوآبادیاتی رویے یہاں کتنی گہراٸی سے پیوست ہیں۔

20 ویں صدی کے عظیم ترین نو آبادیاتی مخالف دانشور اور آزادی کے لیے لڑنے والا فرانتز فینن نے نہ صرف طبقات کو یورپ سے آزادی کے حصول کےلیے تعلیم دینے اور تیار کرنے میں کردار ادا کیا، بلکہ مابعد نوآبادیات قومی تعمیر و تشکیل میں بھی اس نے بہترین رہنماٸی کی۔

تعلیم یافتہ طبقے نے اپنے تمام تر مراعات کے ساتھ محکوموں کی آزادی کی جنگ نوآبادیاتی ذہنیت کے ساتھ حاکم کے خلاف لڑی۔ جس کی وجہ سے رسمی آزادی کے بعد بھی معاملات جوں کے توں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسمی نوآبادیاتی نظام کے اختتام کے 7 دہاٸی بعد بھی اس ملک کے بڑے دفاتر ”تعلیم یافتہ“ لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو کہ نمایاں استثنیٰ کے ساتھ مخالف کو خاموش کرنے کےلیے تسلسل سے ڈنڈا استعمال کر رہے ہیں۔ اور وہ جو نچلی سطح پر بہ نسبت کم تعلیمی پس منظر رکھتے ہیں، برطانیہ کے ھندوستانی فوج میں پولیس حوالدار اور سول محکمے میں چپڑاسی کے کٹھ پتلی کا کردار اپنے پیشروٶں کی طرح ادا کر رہے ہیں۔

موجودہ نوآبادیاتی طاقت میں خاص فرق کٸی لاکھ نوجوانوں کی موجودگی کا ہے جو ریاستی اداروں کے لوگوں کی ”آزادی کے حفاظت“ کے نام پر کام اور منافقتوں کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ باقاعدہ تعلیم یافتہ ہوں یا نہ ہوں، لیکن وہ پوری دنیا سے انٹرنیٹ کے ذریعے جڑ چکے ہیں اور اپنی محرومیوں کے لیے آواز اٹھانا جانتے ہیں۔ خاص طورپر یہ درست ہے کہ تاریخی طورپر جبر کے شکار علاقوں کے لوگ، بلکہ پنجاب جیسے مراعات یافتہ علاقے بھی اب تیزی سے ان میں شامل ہورہے ہیں جو کہ ماضی میں نوآبادیاتی طاقتوں کے ہمایتی و روایتی طورپر زیر اثر رہے ہیں۔

سرحد کے اس جانب بھی مودی سرکار کے خلاف آواز اٹھانے والے نوجوانوں پر غداری کے مقدمے درج کیے جارہے ہیں۔ جس سے برطانوی راج کی یادیں تازہ ہو رہی ہیں۔ آج کے آزادی کی تحریک کے بہادر رہنماٶں، عالمگیر اور منظور پشتین کے ساتھ کھڑے ہونے والوں، جو کہ اپنے پیشروٶں کی طرح برطانوی راج کے دوران بھی اس بات پہ راضی تھے کہ اپنے اذہان کو نوآبادیاتی سوچ سے آزاد کر کے محکوم کے ساتھ کھڑے ہوں کے لیے بڑی رکاوٹ ان کے سامنے بولنا ہے جو کہ دوسری طرف کھڑے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.