فینن قوم پرستی کے خطرات پر

تحریر: ھارون بلوچ

انگریزی سے ترجمہ: فرید مینگل

فرانز فینن اپنے شہرہ آفاق کتاب افتادگانِ خاک میں استعمار مخالف تشدد کے حمایت کی وجہ سے قوم پرست حلقوں میں حد درجہ مقبولیت رکھتا ہے مگر اسی کتاب میں فینن کا ایک تنقیدی پہلو بھی ہے جس کا کبھی ذکر نہیں کیا جاتا جہاں قومی شعور کے خطرات کے نام سے ایک پورا باب ہمیں قوم پرستی سے انتہا پسند قوم پرستی اور انتہا پسند قوم پرستی سے جارحانہ قوم پرستی اور بالآخر نسل پرستی تک کے مراجعت کے خطرات سے پیشگی آگاہ کرتا ہے۔

فینن کہتا ہے کہ نوآبادیاتی نظام کے شکست کے عمل میں ایک وقت ایسا آتا ہے جب قوم پرست قیادت اور عام عوام میں ہم آہنگی کا فقدان پیدا ہو جاتا ہے عام کارکن میں رہنماٶں کے متعلق شدید عدم اطمینانی پاٸی جاتی ہے اور قیادت عوام پر شدید عدم بھروسے کا شکار ہو جاتا ہے۔

قومی جہد میں موجود ان خامیوں کی وجہ سے دانشوروں اور تنقیدی سوچ رکھنے والے کارکنان کے اذہان میں بہت سے سوالات پیدا ہوجاتے ہیں کہ، قوم پرستی کیا ہے۔۔۔؟ لفظ قوم پرستی سے آپ کیا مراد لیتے ہیں۔۔۔؟ اس کے معنی کیا ہیں۔۔؟ آزادی، کس لیے۔۔؟ اور پھر سب سے اہم یہ کہ آپ اس کے حصول کے لیے کونسا طریقہ کار اختیار کرتے ہیں۔۔۔؟

ایسے سوالات بنیادی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ محض نفرت کے جذبات کی بنیاد پر کوٸی پروگرام تشکیل نہیں پا سکتا. فینن کے مطابق محض ھٹ دھرمی پر مبنی حوصلہ اور نعرے کافی نہیں” آپ عوامی غصہ و نفرت کی آمیزش کے ساتھ محض تین دن یا پھر تین مہینے مضبوط و مستحکم رہ سکتے ہیں مگر اس طرح آپ ایک قومی جنگ ہرگز نہیں جیت سکتے عوامی سطح پر شعور بیدار کیے بغیر آپ سفاک دشمن اور اس کے نظام کو شکست نہیں دے سکتے اور نہ ہی عوامی انقلاب لا سکتے ہیں۔

فینن عوامی ابھار کو شعوری شکل دینے میں ناکامی کا ذمہ دار قومی بورژوا زی یا نام نہاد مڈل کلاس قیادت کو قرار دیتا ہے جسے عوامی انقلاب سے کوٸی سروکار نہیں بلکہ اسے تو محض نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کی صورت میں پیدا ہونے والے غیر منصفانہ مفادات ہتھیانے ہیں ۔

عوام کی سیاسی تربیت کی ضرورت کو نظر انداز کرتے ہوئے بورژوا قیادت قومی تحریک کو نسل پرستی کی جانب لے جانے کا مٶجب بنتا ہے فینن کہتا ہے کہ قومی کارکنان جو کہ اکثر بے روزگار عوام کے انبوہ، چھوٹے کاریگر اور دستکاروں پر مشتمل ہوتے ہیں اپنے رہنماٶں کی اس نسل پرستی سے تحریک حاصل کرتے ہوئے مقامی سطح پر گروہی رویوں کا اظہار کرتے ہیں جس کا نتیجہ قباٸلی رویوں اور نسل پرستی کے احیا کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

وہی مڈل کلاس قیادت جو قومی جدوجہد کے مختلف مراحل میں نوآبادیاتی استعمار کو پسپا کر دیتا ہے جلد اپنی نااہلیت کے سبب جد و جہد کو مستحکم اور نتیجہ خیز شکل دینے میں ناکامی کا سامنا کرتا ہے جس پر فینن واضح طور پر کہتا ہے کہ نسلی پرستی کی بنیاد پر قائم محدود قوم پرستی پُراثر اعلانات تو کرسکتا ہے مگرایک انسان دوست پروگرام کبھی بھی پیش نہیں کرسکتا۔

یہ تمام تر صورتحال ہمیں ایک فکری و علمی نقطہ کی طرف لے جاتا ہے کہ ” کیا سوشلزم اور کمیونزم کے حصول سے پہلے قومی بورژوا انقلابی مرحلہ ہونا بھی چاہیے ۔۔۔ فینن کہتا ہے کہ اس کا جواب انقلابی جہد کے میدان میں دیا جانا چاہیے اور بورژوازی پر اسی صورت انحصار کرنا چاہیے جب کہ وہ بحیثیت طبقہ وافر تکنیکی اور معاشی وساٸل رکھتا ہو اور ان وساٸل کا بورژوا معاشرے کی تعمیر و تشکیل کے لیے استعمال میں لانے کےلیے آمادہ ہو ، ایک وسیع تر مزدور طبقے کی بحالی و ترقی کا سامان پیدا کرے، زراعت کو مشینری کے ذریعے جدت دے اور پھر ایک مستند قومی تہذیب کے تشکیل کو ممکن بناٸے۔

مگر ترقی پذیر ممالک میں ایسے کسی انقلابی بورژوا طبقے کا وجود ہی بالکل ناپید ہے بلکہ اس کے متضاد ہمارا بورژوازی طبقہ تخلیقی صلاحیتوں سے عاری ایک قسم کا بے اختیار ،لالچی اور بکاٶ زات ہے جو عظیم نظریات رکھنے کی استطاعت ہی نہیں رکھتا۔

ایک کاہل اور استحصالی بورژوازی کے ہاتھوں یرغمال ہونے سے بچنے کےلیے عوام کو بے اصول اور بے رو قومپرستی سے نکل کر معاشی و معاشرتی شعور کی جانب بڑھنا ہوگا فینن کے ہاں محض قومپرستی کوٸی پروگرام یا نظریہ نہیں بلکہ اسے معاشرتی و سیاسی ضروریات کی شعور میں ڈھالنے کے لیے واضح، نمایاں، زرخیز اور گہرا بناناہوگا دوسرے الفاظ میں قوم پرستی کو انسانیت پسندی میں تبدیل کرنا ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.