بلوچستان: آن لائن کلاسز اور زمینی حقائق

تحریر: غلام رسول آزاد

کرونا وائرس کی موجودہ وبا کی صورتحال میں دنیا بھر میں ایک نئی کشمکش کی لہر پیدا ہو چکی ہے۔ جس کی وجہ سے تمام پبلک پوائنٹس بند کر دیے گئے ہیں، تا کہ کرونا وائرس کے کیسز میں کمی ہو اور انسانی زندگی کو کم سے کم زیرباری پہنچے۔ جس کی وجہ سےتعلیمی ادارے، ٹرانسپورٹ، کاروباری مراکز، مساجد، مندر اور وہ تمام عبادت گاہوں کو بھی بند کر دیا گیا ہے ۔

دنیا کے دوسرے ممالک میں تعلیمی اداروں کو ہر وہ معیاری سہولیات دستیاب ہیں جو حکومت اپنے آنے والی مستقبل کے معماروں کو سہولت فراہم سکتی ہے۔ مگر میرا سرزمین بلوچستان اس جدید دور میں بھی ہر اس سہولیات سے محروم ہے جو روز مرہ زندگی کیلئے انتہائی ضروری ہیں۔

اس وبا کے ساتھ ساتھ ہمیں سینکڑوں اور وباؤں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، بخوبی پاکستان کے ہر ایک شعوری شخص کو معلوم ہے کہ ہمارے پاس اکیسویں صدی میں بھی بابائے آدم کے دور کی زندگی گزاری جا رہی ہے۔

ہمارے تعلیمی اداروں کے طالب علموں کو مستقبل کا کوئی سوجھ ہی نہیں، مجھے اس بات پر افسوس ہوتا ہے کہ بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں موجود جو سربراہ ہیں وہ ان مسائل سے بخوبی واقف ہیں کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں تمام اسٹوڈنٹس بلوچستان کے پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے ہیں. ان میں سے 80٪ طلباء کے پاس انڈروئید موبائل فون اور لیپ ٹاپ ہی نہیں ہوتی ہے اور اگر جن کے پاس موبائل فون اور لیپ ٹاپ موجود بھی ہے تو بس تصاویر کھینچنے اور فلم دیکھنے کے سوا کسی کام کے نہیں۔ کم سے کم ہمارے تعلیمی اداروں کے سربراہ کو چاہیے کہ آنلاین کلاسیز سے بائیکاٹ کر دیتے ۔

بقول ایک دوست کے، ہم سے انٹرنیٹ کے مسئلے پر سروے کرایا جارہا تھا مگر وہ بھی آنلائن۔ ہمارے ادارے کچھ زیادہ ہی عقل مند ہوگئے ہیں یا پھر ہمیں ہی بے وقوف بنایا جارہا ہے، جہاں انٹرنیٹ سروس ہی موجود نہیں تو وہاں اسٹوڈنٹس کہاں سے سروے کریں گے۔ بلوچستان کے تقریبا 80٪ لوگ انٹرنیٹ کی سہولت جیسی نعمت سے محروم ہیں ۔

بلوچستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے 85٪ طلبہ پاکستان کے دوسرے صوبوں میں زیر تعلیم ہیں جو کہ انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے آنلاین کلاسز لینے سے محروم ہیں جب کہ آنلاین کلاسز لینے کے لئے طلباء خود اس بات کو ماننے کو تیار نہیں ہیں، کہ مستقبل بھی ان ہی اسٹوڈنٹس کے داؤ پر لگے ہوئے ہیں

اگر آپ اور کی حکومت بلوچستان کو صرف شال و گوادر کی شکل سے دیکھتے ہیں تو یہ آپ کی غلط فہمیاں ہے
ایچ ای سی, خدارا اپنی ان غلط پالیسیوں کی وجہ سے پسماندہ بلوچستان کے غریب طالب علموں کی مستقبل کے ساتھ نہ کھیلیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.