بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی مرکزی کابینہ کا اجلاس زیر صدارت چیئرمین ظریف رند منعقد, سیاسی تناظر سمیت سانحہ ڈھنک اور برمش ریلی و حکمت عملی, آن لائن کلاسز, طلبہ کا اتحاد و اشتراک اور دیگر اہم تنظیمی امور زیر بحث رہے

مرکزی اطلاعات و نشریات, بی ایس او  

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی مرکزی کابینہ کا اجلاس 5 جون کو آن لائن سپیس میں منعقد ہوا جس کی صدارت مرکزی چیئرمین ظریف رند نے کی اور کاروائی مرکزی سیکرٹری جنرل چنگیز بلوچ نے چلائی

اجلاس میں متعدد ایجنڈے زیر بحث رہے، جس میں ملکی تناظر, سانحہ ڈھنک کے بعد بلوچستان بھر سے اٹھنے والے برمش ریلی اور عوامی ردعمل, آن لائن کلاسز اور طلبا کو درپیش مسائل, طلبہ کے درمیان باہمی اشتراک کی ضرورت اور حکمت عملی سمیت تنظیمی امور تفصیل کے ساتھ زیر بحث ایجنڈے تھے

اجلاس میں کہا گیا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے تنظیمی لٹریچر اور سرکلز و سیمینار میں پچھلے ایک دہائی سے بالخصوص بارہا یہ تناظر پیش کیا جاتا رہا ہے کہ بلوچستان کی سیاسی جمود جوکہ خوف اور مایوسی کے بل پر مصنوعی طور پر تعمیر کی گئی ہے یہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی جبکہ پچھلے سالوں سے معروض نے تلخ حالات کے باوجود ایک واضح کروٹ کا اظہار کر دیا ہے جوکہ بلوچستان یونیورسٹی سکینڈل اور اب سانحہ ڈھنک کے بعد سطح پر کھل کر اپنا اظہار کر گئی ہے. مگر جس ضرورت کو پورا کرنے پر ہم بارہا زور دیتے رہے ہیں وہ موضوعی عنصر کا رہا ہے جسکی کمی موجود رہی ہے. یہ موضوعی عنصر ایک مضبوط سیاسی تنظیم کی شکل میں ناگزیر تھی جسے ہم نے تعمیر کرنے پر تمام تر توانائیاں سرف کی ہیں جوکہ کسی حد تک طلبا کے درمیان بی ایس او کی صورت میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہے مگر ماس فرنٹ پہ یہ ضرورت اب بھی تشنہ تعبیر ہے. برمش ریلی میں جس چیز کی سب سے زیادہ کمی محسوس ہوتی ہے وہ متحرک ادارے اور مضبوط قیادت کی ہے جس کے بغیر یہ عوامی ابھار ایک بلبلے کی صورت میں ہوا میں تحلیل ہوتی جائے گی. اس لئے آج کی نوجوان نسل کی کاندھوں پر یہ بھاری بھرکم بوجھ آ چکا ہے کہ وہ اس کمی کو پورا کریں اور واضح حکمت عملی و پروگرام کے تحت اس عوامی ابھار کو تحریک میں بدل دیں

بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتیں اپنی نااہلی میں ختم ہوتی جارہی ہیں، شہید ملک ناز بلوچ کی شہادت اور برمش پر گولی کا گھاؤ پورے بلوچستان کی عوام کے جذبات سلگا چکی ہے مگر ایک بھی ایسی جماعت نہیں ہے جو قومی سطح پر عوامی رائے کو سیاسی بیانیہ و پروگرام دے سکے. تمام تر موجود جماعتیں عوامی اعتماد کھو چکی ہیں. اس لئے بلوچستان کے طول عرض پر پھیلنے والی اس تحریک نے ایک بار پھر نوجوان قیادت کا انتخاب کیا ہے جوکہ اسے منزل کی جانب گامزن کر سکتی ہے اور حقیقت بھی یہی ہیکہ اس تحریک میں سب سے زیادہ نوجوان ہی متحرک ہیں

مرکزی رہنماؤں نے کہا کہ بلوچستان کے طلبا کو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ آن لائن کلاسز کا پیش آ رہا ہے. زمینی حقائق یہ ہیں کہ بلوچستان کی اکثریتی حلقوں میں بجلی کی سہولت ناپید ہے, انٹرنٹ اور موبائل سروسز سے لوگ محروم ہیں, لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر کی سہولیات دستیاب نہیں ہیں جبکہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان ان تمام تر زمینی حقائق پر چشم پوشی کرتے ہوئے ملک بھر میں آن لائن کلاسز کی پالیسی لاگو کر رہی ہے جوکہ بلوچستان باسیوں کے لیئے متعصبانہ جبر کے مترادف ہے.
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آن لائن کلاسز کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کرتی ہے کہ ریاست پہلے بلوچستان کے طول و ارض میں بجلی, انٹرنٹ سروسز, موبائل سروسز, لیپ ٹاپ اور تمام ضروریات فراہم کرے اس کے بعد آن لائن کلاسوں کا اجراء کرے تو طلبہ کو کوئی اعتراض نہ ہوگا. وگرنہ ہم مجبور ہونگے کہ اس متعصبانہ پالیسی کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کریں

مرکزی اجلاس میں یہ اتفاق کیا گیا بلوچستان بھر کے نوجوانوں کو اتحاد و اشتراک کی جانب لے جانے کیلئے بی ایس او ایک باقائدہ پروگرام پیش کرے گی جسے ڈرافٹ کی صورت میں ہمخیال تنظیموں و سیاسی و سماجی سرکلوں کے ساتھ شیئر کیا جائے گا جس کے ذریعہ باہمی اتفاق و اتحاد کیلئے راہیں استوار کی جائیں گی

علاوہ ازیں مرکزی کابینہ نے آن لائن سرکلز, بک ریووز اور آن اجلاسوں کے سلسلے مزید بہتری کے ساتھ جاری رکھنے کا فیصلہ لیا اور تنظیمی رابطہ کاری پر ترجیحی بنیادوں پر زور دیا

Leave a Reply

Your email address will not be published.