غریب طلباء پھر سے مایوسی میں

تحریر: لالا ماجد


ہر اس شخص کو بخوبی علم ہوتا ہے کہ اسکا ملک کتنے پانی میں ہے اس کے باوجود اپنی انا میں رہنا یا ضد کرنا سمجھ سے باہر ہے
جیسے کہ سب جانتے ہیں کہ ایک
وبا جس نے پوری دنیا کے نظام کو تہس نہس کر دیا ہے اور بدقسمتی سے ہمارا ملک بھی شامل ہے جس کو پہلے سے مختلف وباؤں نے گھیرا تھا اب ایک کرونا بھی آٹپکا
جو ملک کورونا سے پہلے خوب ترقی کر رہے تھے لیکن وہاں کورونا ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن گیا اور ہم نہ کرونا سے پہلے ترقی کر رہے تھے نہ کرونا کے ساتھ کر رہے ہیں ہمارے حکمران اگر کچھ کر رہے ہیں تو صرف ڈرامے, وہ بھی غریبوں کے ساتھ جوکہ ہر وقت دیکھا گیا ہے کہ نقصان ہمیشہ غریبوں کا ہی ہوتا ہے


جیسا کہ ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ پورے ملک کے زیادہ تر طلباء آن لائن کلاسز کے حق میں نہیں ہیں ویسے ہی اگر دیکھا جاۓ ایچ ای سی نے آن لائن کلاسز لینے کا ایک اچھا فیصلہ کیا ہے کیونکہ کرونا ہے اور تعلیم کو بھی ساتھ لے کے چلنا ہے تو آن لائن کلاسز تو لینا ہی ہے
مگر ایچ ای سی کے سربراہان شاید یہ بھول چکے ہیں کہ آن لائن کلاسز کے لیے ایک اچھا سا موبائل اور اس کو پیکج کرنا ہوتا ہے جو ایک غریب طلباء کے لئے ناممکن سی بات ہے چلو اگر یہ ممکن بھی ہو جائے تو ایک اور مسئلہ بھی ہے جو اس کے ہاتھ میں نہیں بلکہ حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے جو کہ انٹرنیٹ ہے اب بغیر انٹرنیٹ کے تو آن لائن کلاسز لینا ممکن نہیں ہے. ایچ ای سی کو یہ تو معلوم ہوگا اور اگر نہیں معلوم تو سارے صوبے نہیں صرف بلوچستان کا دورہ کریں کیا سچ اور کیا جھوٹ ہے یہ آپ سمجھ لیں گے
جس طرح ہر تیس کلومیٹر کے بعد زبان تبدیل ہو جاتا ہے اسی طرح بلوچستان میں اگر انٹرنیٹ کو دیکھا جائے تو اس کے سگنلز ہر دس کلومیٹر کے بعد تبدیل ہو جاتے ہیں کچھ جگہ تو ایسے بھی ہیں جہاں سگنلز لانے کے لئے یا تو پہاڑ چڑھنا ہوتا ہے یا علاقہ تبدیل کرنا ہوتا ہے
اب بھی اگر آن لائن کلاس لینے کے ضد میں ہوں تو سب سے پہلے حکومت سے درخواست کریں کہ بلوچستان کو انٹرنیٹ دیں اور پاکستان میں جہاں بھی انٹرنیٹ نہیں ہے وہاں پہلے انٹرنیٹ دیا جائے انٹرنیٹ کے بعد آن لائن کلاس ضرور لیے جائیں۔


بنیادی ضروریات کو پورا کرنے سے ہی بنیاد کو مضبوط کیا جا سکتا ہے. دوسرے ملکوں میں اگر آن لائن کلاسز ہو رہے ہیں تو وہاں انٹرنیٹ ہے اور آپ کے کسی صوبے میں انٹرنیٹ ہے تو کسی صوبے میں نہیں ہے. اب اس بات کی سزا غریب طلباء کو دینے کے بجائے اس نااہل حکمرانوں سے پوچھا جائے جنہوں نے بٹورنے کے سوا اور کچھ نہیں کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.