منشیات سے انکار

تحریر: غلام رسول آزاد

بلوچستان کو درپیش مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ نوجوان نسل کا منشیات کی طرف راغب ہونا ہے۔ ویسے تو منشیات دنیا بھر میں ایک بڑھتے ہوئے رجحان میں سے ایک ہے۔ مگر بعض ملکوں میں منشیات کی بڑھتی ہوئی شرح کو کافی کنٹرول کیا گیا ہے۔

انسان جب بھی منشیات میں مبتلا ہو جاتا ہے تو نشے کا عادی بن جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ خطرناک بیماریوں کا شکار بھی ہو جاتا ہے اور وہ منشیات کا اس قدر عادی بن جاتا ہے کہ وہ نشے کو اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ اس کے بغیر زندہ رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ جسمانی کمزوری، ذہنی دباو اور بہت سے مسائل سے دو چار ہو جاتا ہے۔ یوں ہی بہتر ہونے کی امید کھو بیٹھتا ہے۔ نہ ہی اپنی ذمہ داری کی فکر میں ہوتا ہے اور نہ ہی قوم ملک کی فکر میں ہوتا ہے ۔

کوئی بھی قوم تباہ کاری کا شکار تب تک نہیں ہوتی جب تک نوجوان نسل اپنی زندگیوں کو منشیات کے لت میں نہ لگاتا ۔

اگر ہم بلوچستان کی بات کرلیں تو منشیات اس حد تک عام ہوچکی ہے کہ ہر گلی کوچے میں فروخت ہو رہی ہے اور ان کو با اثر افراد کی سرپرستی حاصل ہے ۔
حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ۶۵٪ نوجوان عام طور پر ۱۴ سال کی عمر سے ہی منشیات کا عادی بن جاتے ہیں ۔
اور ان نشہ آور اشیاء میں سے زیادہ تر سگریٹ، شراب، چرس، شیشہ اور ہیروئن زیادہ تر استعمال کیا جاتا ہے۔ ان نوجوانوں کے پڑھنے کے دن ہیں ۔ان کے دل و دماغ کو علم سے منور کی جائے ۔

علم سے آراستگی دور کی بات ہماری تعلیمی اداروں میں بھی منشیات سر عام بک رہی ہے۔ جہاں سکیورٹی فورسز، پولیس اور سکیورٹی گارڈ کے ہوتے ہوئے بھی آخر کیوں؟۔ یہ سوال ہر بلوچ نوجوان کے دل و دماغ میں ہر روز جنم لیتی ہے۔
یہ سوال ہر روز ایک نیا سوال لے کر بلوچ نوجوانوں کے ذہن میں ایک بھونچال پیدا کر رہی ہے کہ یہ عزاب آخر بلوچ سر زمین پر کیوں ہے۔ بلوچ وطن کے ایک سرے سے لیکر دوسرے سرے تک منشیات کے لعنت کے لپیٹ میں ہے ۔ یہ نئی بلوچ نوجوان نسل کے خلاف ایک سازش ہے۔ ایک گھناونا چال ہے۔ اس سے نئی نسل کی زہن و فکر اور دماغ دیمک کی طرح ریزہ ریزہ ہو رہی ہے ۔ نئی نسل کو علم سے شعور سے اور جدید تعیلم سے اس لعنت کو بلوچ وطن سے جڑ سے اکھاڈ کر پھنکنے کی ضرورت ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.