نئے غلام

کرشن چندر

کوریا کی لڑائی میں مرنے والے امریکی سپاہی کے نام ایک خط

یہ خط میں نے سپاہی کینتھ شیڈرک، عمر بیس سال، ساکن مغربی ورجینیا، امریکہ کے نام لکھا ہے. سپاہی کینتھ شیڈرک پہلا امریکی سپاہی ہے جو کوریا کے محاذ پر کوریا والوں کے خاف لڑتا ہوا مارا گیا۔ اس سپاہی کو امریکہ کے صدر ٹرومین نے وہاں بھیجا تھا۔

میں نے اُس کے مرنے کی خبر کل شام کے اخبار فری پریس بلیٹن میں پڑھی تھی. جنرل میک آرتھر کے فوجی ہیڈ کوارٹر نے بڑے طمطراق سے اس موت کی خبر شائع کی تھی۔ لیکن اس خبر میں افسوس کا شائبہ تک نہیں تھا، مرنے والے کے اعزاء سے ہمدردی کا کوئی پہلو نہیں نکلتا تھا۔ مرنے والے کی زندگی اُس کی عادتوں اور طور طریقوں پر کوئی روشنی نہیں پڑتی تھی۔ یہ بھی نہیں پتہ چلتا تھا کہ اس کی شکل و صورت کیسی تھی، تصویر جنرل میک آرتھر کی تھی، موت سپاہی کینتھ شیڈرک کی۔

جوں ہی میں نے اس کے مرنے کی خبر پڑھی، میں نے اسے خط لکھنے کا فیصلہ کیا۔ یہ تو میں جانتا تھا کہ مُردے میرا خط نہیں پڑھ سکتے، لیکن اتنی ضرور اُمید ہے کہ اگر کوئی دوسرا سپاہی اس خط کو پڑھے گا تو اُسے پڑھ کر مرنے والے کی فوجی وردی کے بائیں طرف کی اندرونی جیب میں ڈال دے گا جہاں سپاہی شیڈرک نے اپنی سونے کی گھڑی رکھی ہوئی ہے, جہاں اُس کی محبوبہ کی ہنستی ہوئی تصویر ہے, جہاں اُس کی ماں کا آخری خط ہے اور پھر جب جنرل میک آرتھر کے ملازم متوفی کی آخری چیزیں اس کے وارثین کو واپس کریں گے، مجھے امید ہے کہ یہ خط بھی کسی نہ کسی طرح اُن چیزوں کے ہمراہ مغربی ورجینیا پہنچ جائے گا اور وہاں اسے سپاہی شیڈرک کے رشتے دار پڑھیں گے۔ اس کے دوست اور دوسرے ہزاروں نوجوان شیڈرک جن کی عمر 20 سال کی ہے جو مغربی ورجینیا کے رہنے والے ہیں اور جنہیں اس سے پہلے مرنے والے کی طرح سزائے موت دی گئی ہے۔ اس لیئے یہ خط اشد ضروری ہے کیونکہ مُردوں کو دوبارہ زندگی نہیں مل سکتی لیکن زندہ تو زندہ رکھے جا سکتے ہیں۔

جس خبر میں شیڈرک کی موت کا ذکر تھا اُس میں بھی لکھا تھا کہ امریکی فوج کوریا والوں سے پٹ کر بڑی تیزی سے پسپا ہوگئی ۔ اتنی تیزی سے کہ وہ لوگ اپنے زخمی اور مُردہ سپاہیوں کی لاشیں بھی وہیں چھوڑ گئے، تو اس کا مطلب یہ ہواکہ تم ابھی تک وہیں ہو۔

سپاہی شیڈرک تم ابھی کوریا کے کسی اونچے ٹیلے پر مرے پڑے ہو اور میں تمہارے دل کے اندر گھسی ہوئی کارتوس کی گولی دیکھ سکتا ہوں، تمہاری آنکھوں کا کرب تمہارے سنہرے بال دھوپ میں چمکتے ہوئے اور میرا دل غم اور غصے سے بھر جاتا ہے اور میں پوچھتا ہوں کہ وہ کون تھا جو تمہیں یہاں لایا۔ جس نے تم سے تمہاری جوانی، تمہاری محبوبہ، تمہاری ماں کی محبت تم سے چھین لی اور تمہیں وطن سے اتنی دور اجنبی اور انجانے ٹیلے پر مرنے کے لیے مجبور کیا۔ وہ کون تھا؟ جس نے تمہارے ہاتھ میں بندوق دے دی اور تم سے کہا جاؤ اپنی 20 سالہ جوانی کی ساری آرزوؤں اور امنگوں کو اجنبی کوریا کے میدانوں اور پہاڑوں پر لے جا کے ان کے سینے میں گولی داغ دو؟۔۔۔وہ کون تھا؟۔۔۔۔وہ کون سی طاقتیں تھیں؟۔۔۔ہمیں ان کا پتہ چلانا ہے، کیونکہ امن کی پیاسی دنیا اس سوال کا جواب چاہتی ہے۔

تم بھی کہو گے عجب انسان ہے جو اس قدر بے تکلف ہو کر مجھے خط لکھ رہا ہے۔ معاف کرنا میں جلدی میں اپنا تعارف کرانا بھول گیا۔ میرا نام کرشن چندر ہے, کچھ عرصہ پہلے میں لاہور کی ایک چھوٹی سی گلی میں رہتا تھا، میری گلی کا نام چوک متی تھا، معلوم نہیں آج کل لوگ اسے کیا کہتے ہیں، کیونکہ شائد تمہیں اس پر اعتبار آئے یا نہ کہ جن لوگوں نے تمہاری زندگی تم سے چھینی ہے ان ہی لوگوں نے میرا وطن، میرا شہر، میری گلی مجھ سے چھین لی ہے۔ اور جس طرح تم آج اپنے گھر واپس نہیں جاسکتے میں بھی اپنی گلی کو لوٹ نہیں سکتا۔۔۔۔ کہ یہ سب محض اتفاق ہے، ایک اتفاق جابر، ایک ظالم قسمت جس نے تم سے اور مجھ سے یہ سلوک کیا یا کہ ایک خوفناک ظالمانہ سازش ہے چند سیاستدانوں کی اور ظلم پروردہ قوتوں کی جنہوں نے تم سے تمہاری زندگی اور مجھ سے میرا وطن چھینا ہے. تمہیں اور مجھے دونوں کو مل کر اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہے، ماضی اور حال کو ملا کے مستقبل کا راستہ ڈھونڈنا ہے۔

یہ سچ ہے کہ میں تمہارے امریکہ کبھی نہیں گیا ہوں، مجھے کبھی پاسپورٹ ہی نہیں ملا، نہ انگریزی سرکار نے دیا نہ کانگریسی سرکار نے۔ اس پر بھی میں تمہارے امریکہ کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ اس کے خدوخال کی تمام تر رعنائی اور اس کی اندرونی بدصورتی بھی مجھ پر آشکار ہے. امریکہ کا چہرہ پہلے پہل ایک چھوٹی سی کہانی میں دیکھا۔ اپنی انگریزی کی پہلی کہانی میں۔ یہ امریکہ کے پہلے صدر جارج واشنگٹن کی کہانی تھی کس طرح وہ سچ بولتا تھا اور سچ پر عمل کرتا تھا۔ اس کہانی نے مجھے اپنے بچپن میں بہت متاثر کیا اور میں سمجھتا رہا کہ امریکہ سچ بولنے والوں کا ملک ہو گا۔ جہاں کوئی جھوٹ نہیں بولتا۔ پھر میں بڑا ہوا تو میں نے مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئیے لاہور میں ایک امریکن کالج میں داخلہ لیا۔ فارمن کرسچن کالج لاہور میں۔ یہاں پر میں نے ان عظیم امریکی عوام کا چہرہ دیکھا جنہوں نے انگریزی شہنشہائیت کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی, جنہوں نے غلامی کے خلاف جنوبی امریکہ سے اپنے ہی بھائیوں سے حق وصداقت کے لیئے خانہ جنگی کی اور غلام حبشیوں کو آزادی دلانے کی پوری کوشش کی اور جن کے لیئے دنیا کی دوسری قوموں کے دلوں میں بڑی عزت اور محبت ہے۔

ایسے امریکہ کو میں سر جُھکا کے سلام کرتا ہوں۔ آزادی کا جذبہ ، آزادئی تحریر و تقریر کی قیمت بھی مجھے اپنے امریکی پروفیسروں سے ملی ہے، جمہور پر بھروسہ کرنا میں نے ان ہی سے سیکھا, میں نے ابراہم لنکن کو دیکھا، امریکہ کے ساحل پر ایستادہ آزادی کی دیوی کو دیکھا اور ان نبرد آزما جری بہادروں کے کارنامے پڑھے جنہوں نے امریکہ کے قبائیلی منظر کو ایک جاندار شاندار پھیلتے ہوئے جیتے جاگتے وسیع تمدن میں تبدیل کر دیا۔ وہاں پر میں نے مارک ٹوین، ڈری زر ، اور والٹ وٹمین کو پڑھا جس نے اپنی نظموں میں مجھ سے اسطرح گفتگو کی، جیسے وہ میرا ہمسایہ ہو اور میرے ساتھ والے گھر میں رہتا ہو۔ اور پھر ایک روز تاریخ کے پروفیسر نے مجھے ایک گراموفون ریکارڈ تحفے میں دیا یہ پال روبسن کا گیت تھا اور مجھے اس کے نغمے میں تخلیق کا سارا درد اور راس کی ساری خوشی مستور نظر آئی اور میری نگاہوں میں امریکی وادیوں میں ڈیفوڈئل کے پیلے پیلے لاکھوں پھول کھلتے گئے، اور لاکھوں بازو اپنی صاف ستھری دیانتدار انگلیوں سے امریکہ کا کارخانہ چلانے لگے، میں نے ہزاروں بچوں کی ہنسی سُنی جو رائی کے گھنے جنگلوں میں سب کی نظروں سے دور پریوں کی طرح محو خرام رہتی ہیں۔ حیرت ہے کہ پال روبسن کا ایک نغمہ اپنی تنہائی میں کیا کچھ سمیٹ لاتا ہے۔ امریکہ کا لامحدود حُسن اور اس کا سُندر سجل روپ۔۔۔۔ میں پال روبسن کا اور اپنے دوسرے امریکی دوستوں کا شکر گزار ہوں۔ ان کی مدد سے میں نے اپنی نا واقفیت کا نقاب اُلٹ کر امریکی عوام کا خوبصورت چہرہ دیکھا ہے۔ یہ عوام تو بالکل میرے اپنے وطن کے عوام جیسے ہیں۔ بالکل سیدھے سادے محبت کرنے والے صاف دل لوگ جیسے میرے وطن کے لوگ ہیں۔

لیکن ایک دوسرا امریکہ بھی ہے ۔ عوام کا امریکہ نہیں ، عوام کا حق غضب کرکے ان پر حکومت کرنے والوں اور فوجی راہنماؤں اور بڑے بڑے تاجروں کا امریکہ. امریکہ جو فورڈ کا ہے، ڈالر کا ہے، ڈوہان کا ہے، راک فیلر اور مورگان کا ہے اور دوسرے سینکڑوں ایسے تاجروں اور بنکاروں کا ہے جن کا نام بھی میں نہیں جانتا ، لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ یہی وہ امریکہ ہے جس نے تمہیں کوریا میں موت کے گھاٹ سلایا ہے اور جن کا ہاتھ اگر کبھی مجھ پر پڑ جائے تو مجھے بھی موت کے گھاٹ اتار دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں گے۔ یہ عظیم تجار، سونے، چاندی، لوہا،کوئلہ، آلو، تیل، زہریلی دواؤں اور اسلحہ جات کی سامراجی کوٹھیوں کے مالک… یہی وہ لوگ ہیں جو ہر جاندار یا غیر جاندار شے کو شخصی منافع کے لیے بیچتے ہیں۔ جنہوں نے تمہیں بھی ایک تھوڑے سے منافع لیے کوریا میں بیچ دیا ہے۔ شائد تمہارے ہاتھ میں بندوق دیتے وقت انہوں نے تمہیں راز نہیں بتایا ہوگا۔ تم سے صرف یہ کہا ہو گا کہ تم امریکی قوم کے حقوق کی حفاظت کرنے کوریا جا رہے ہو۔ تمہیں اس وقت ان راہنماؤں سے پوچھنا ہوگا کہ وہ کون سے امریکی حقوق ہیں اور وہ کوریا میں کیا کر رہے ہیں کیونکہ ان حقوق کو واپس امریکہ میں مغربی ورجینیا میں نہیں بلا لیا جاتا جہاں میں وطنیت کے ایک صحیح اور جامع جذبے سے سرشار ہو کے ان کی حفاظت کر سکتا ہوں؟

شیڈرک تم نے بڑی غلطی کی جو تم نے اپنے رہنماؤں سے یہ سوال نہیں پوچھا۔ تم نے اس کی بڑی سزا بھگتی ہے میں جانتا ہوں کہ تم اس کے لیئے اکیلے زیادہ گنہگار نہیں ہو۔ میں تمہیں الزام نہیں دیتا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ یہ امریکی سامراجی تاجر کتنے پُر فن اور چالاک ہوتے ہیں، جاپان سے جنگ چھڑنے سے ایک روز قبل پرل ہاربر کے دن تک یہ تاجر جاپان کو لوہا بیچ رہے تھے. دو سینٹ کے منافع کے لیے انہوں نے اپنے ملک کو بیچ ڈالا اور تمہیں تو شائد انہوں نے دو سینٹ کے منافع کے قابل بھی نہیں سمجھا اور ابھی تمہاری طرح ہزاروں امریکی شیڈرک گولیوں کا نشانہ بنیں گے اور پھر جا کے کہیں انہیں سمجھ آئے گی کہ اب تک وہ جس چیز کے لیے لڑتے رہے وہ امریکی جمہوریت نہیں تھی، وہ کوئلے کا ایک پتھر تھا جس پر کوریا والوں کا حق تھا، وہ مٹی کے تیل کا ایک قطرہ تھا جس پر فلسطین کا حق تھا، وہ ربڑ کا ایک درخت تھا، قلعی کی ایک کان تھی جس پر ملایا والوں اور ہند چینی والوں کا حق تھا ، تم جمہوریت پھیلانے نہیں آئے تھے ، دوسروں کا حق غصب کرنے آئے تھے، یہ تمہاری غلطی تھی کہ تم نے اپنے رہنماؤں سے اس بارے میں کچھ نہیں پوچھا۔

میں سمجھتا رہا کہ انسان دنیا میں بہت سے کام یوں ہی کرتا ہے, عدم توجہی سے کرتا ہے لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ جب ایک آدمی اپنے ہاتھ میں بندوق اُٹھاتا ہے اور دوسرے کے گھر میں گھُستا ہے تو اسے اپنے آپ سے بہت سے سوال کرنے چاہیئے۔ کیا یہی راستہ ہے؟ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں؟ کیا میں راستی پر ہوں؟ کیا ایک دوسرے کے گھر میں گھُسنے کا مجھے کوئی حق ہے؟ یہ سوال بندوق اٹھانے سے قبل ضرور طے کر لینے چاہئیں کیونکہ بندوق زندگی لیتی ہے، دیتی نہیں اور ہمارے ایشیا میں تو ایک بہت ہی خوبصورت دستور ہے، ہم لوگ اگر مانگنے کے لیے کسی کے گھر جاتے ہیں تو بندوق نہیں لیجاتے پھول لے جاتے ہیں اور میں نے سنا ہے کہ تمہارے مغربی ورجینیا میں بڑے ہی خوبصورت پھول ہوتے ہیں۔

میرے دوست! تم ایشیا میں پھول نہیں لائے بندوق لائے۔ اس لیئے امریکی ایشیائی تعلقات کی کہانی اس قدر اداس اور دردناک کہانی بن گئی۔ یہ کہانی آج سے بہت عرصہ پہلے شروع ہوئی تھی 1854 میں امریکی کموڈور پیری اپنے چھوٹے سے بحری بیڑے کی کمان میں جاپان کے ساحلوں پر نمودار ہوا اور بندوق اٹھا کے کہنے لگا اپنے ملک کے سارے دروازے کھول دو اور امریکی تجارت کو اندر آنے دو۔ ذرا یاد کرو کہ 1854میں پیری جاپان میں نمودار ہوا اور 1859میں نکلسن دلّی کا دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔ اور باسفوس سے بنکاک تک اور اس سے اور آگے تک ہمارے ایشائی ملکوں میں برطانوی، پرتگیزی ، فرانسیسی ، دلندیزی، سامراجیوں کی لوٹ مچی ہوئی تھی۔ یہ لوگ جو دراصل منافع اور لوٹ کھسوٹ کے لئے ایشیا آئے تھے۔ اور دنیا کو یہ کہہ کر ٹھگتے تھے کہ وہ جاہل اور وحشی ایشیا میں عیسائی تہذیب و تمدن کا رواج دینا چاہتے ہیں۔ آج جبکہ ایشیا کے ہر ملک میں محب وطن اپنی آزادی کے لیے جان کی بازی لگا رہے ہیں سامراجیوں نے وہ نعرہ ترک کر دیا ہے۔ آج ان کا نعرہ ہے ہم اشتراکیت کو کیمونزم کو ایشیا میں نہیں آنے دیں گے۔ ہم اپنی جمہوریت پھیلائیں گے۔ آج نعرہ بدل گیا ہے، نعرے باز نہیں بدلے یہ وہی موت کے سوداگر ہیں بھیس بدل کر آئے ہیں، لیکن میں ان کا چہرہ اس نقاب کے اندر بھی صاف صاف دیکھ سکتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ تم بھی اسے دیکھو اور تمہاری طرح دوسرے لاکھوں امریکی نوجوان بھی دیکھیں جنہیں جنگ کا ایندھن بنایا جا رہا ہے. یہ اس دوسرے امریکہ کا چہرہ ہے جو اپنی ڈالری شہنشائیت پر سخاوت اور خیرات کی نقاب اوڑھے ہوئے ہے ، اس نقاب کو الٹ دو دوست، اس کا خاتمہ قریب آجائے گا۔

میں تمہیں امریکی اور مغربی سامراجیوں کی کہانی سُنا رہا تھا 1858میں چین میں محب الوطنوں نے باگسر کی بغاوت اٹھائی لیکن مغربی سامراجیوں نے مل جل کر اس بغاوت کو بڑی سختی سے کچل دیا۔ اور اس پانچ ہزار سال پرانے مہذب ملک کے دروازے پھر اس اجنبی ڈاکو کے لیے وا کر دئے گئے جو اندر آکے چینی عوام کی محنت لوٹنا چاہتا تھا۔ اس کے دریاؤں پر قبضہ جمانا چاہتا تھا ، اور ان کی کانوں کی دولت اور قیمتی پیداوار سے چینی عوام کو محروم رکھنا چاہتا تھا۔ اور ان کی وطنی عزت اور حرمت کو پاؤں تلے روند دینا چاہتا تھا چنانچہ یہ سب کچھ ہوا اور پہلی جنگ عظیم لڑی گئی اور پھر دوسری جنگ عظیم جس کے آخر میں بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سارا چین اور سارا جاپان امریکی سامراجی اقتدار تلے آگیا ہے اور پھر کوریا بھی، کوریا کے بیچ میں اڑتیسویں عرض البد کے نیچے سارے علاقہ پر ڈالر نے اپنے پاؤں جما لئے اور اس طرح کوریا کا یہ خوبصورت ملک بھی ٹکرے ٹکرے ہو گیا۔ جس کا تہذیبی سلسلہ کم از کم چار ہزار برس پرانا ہے۔ اگر میں تم سے کہوں کہ یہ انسانیت کے خلاف اک جرم ہے تو شاید بے جا نہ ہو گا، کیونکہ آج تک کسی قوم کا دل اس طرح طول البلد اور عرض البلد کی لکیروں سے ناپا نہیں گیا ہے. کوریا ایک لمبے عرصے سے ایک ملک ہے، ایک قوم ہے، ایک زبان ہے، ایک گیت ہے اور مغربی اور امریکی سامراجیوں کی تمامتر سازشوں اور جنگوں کے بعد بھی ایک رہے گا۔ ایسا میرا اعتقاد ہے کہ آج کسی بھی اجنبی طاقت یا قوت کو یہ حق ہی نہیں کہ وہ ایک قوم کے دو ٹکرے کر دے اور جو ایسا کرتا ہے ہم اسے جمہوریت پسند نہیں کہتے، اسے جمہوریت دشمن کہتے ہیں۔

کوریا پر کوریا والوں کا حق ہے، جس طرح امریکہ والوں کا امریکہ پر حق ہے، وہ جس طرح چاہیں اس کی قسمت بنائیں یا بگاڑیں ، جس طرح کی حکومت چاہیں بنائیں، اپنے رہنما چُنیں, اپنا معاشی اور سیاسی نظام بدلیں اور انہیں اس بات کا پورا پوار اختیار ہے کہ ان کی اندرونی اور خارجہ پالیسی کیا ہو گی۔ ان کے جھنڈے کا رنگ کیا ہو گا۔ اور ان تمام باتوں پر ان کا حق فائق ہے، اور کسی اجنبی کو یہ حق نہیں ہے کہ ان کے متعلق اپنا فیصلہ ان پر ٹھونس دے. اگر کوریا کے لوگ آپس میں مل بیٹھ کر صلح صفائی سے اس معاملہ کو طے کر لیتے ہیں تو بہت ہی اچھا ہے، لیکن اگر وہ اس معاملہ کو اپنی ذاتی نجی خانہ جنگی سے طے کرتے ہیں تو بھی کسی دوسرے کو اس میں بولنے کا حق ہے۔۔ وہ صلاح دے سکتا ہے اس خانہ جنگی کو اچھا یا بُرا کہہ سکتا ہے، لیکن بندوق اٹھا کے ان کے گھر میں نہیں گھُس سکتا۔ آخر امریکہ میں بھی تو خانہ جنگی ہوئی تھی اور شمالی امریکہ والوں نے جنوبی امریکہ والوں سے غلامی کے خلاف خانہ جنگی کی تھی اور کئی سالوں تک، لیکن بیچارے کوریا والوں نے تو اس خانہ جنگی میں کوئی مداخلت نہیں کی اور برطانیہ کی خانہ جنگی بھی ہمیں یاد ہے، جب انہوں نے اپنے بادشاہ چارلس اول کا سر قلم کر دیا تھا۔ اس وقت شاہ کوریا نے برطانیہ کی شاہیت کی حمایت کرنے کے لیے اپنے سپاہی برطانیہ نہیں بھیجے تھے تو پھر آج کیوں برطانیہ کوریا کے سمندر میں اپنا بحری بیڑہ بھیج رہا ہے، کس لیے؟ اڑتیسویں عرض البلد کی حفاظت کے لیے؟ یہ بھی عجب مذاق ہے، کوئی تعجب نہیں کہ اگر واقعات کی یہی رفتار رہی اور امریکی سامراجی کوریا سے اسی طرح بھاگتے رہے تو ایک روز برطانیہ کو خط استوا کی حفاظت کرنی پڑ جائے۔

لیکن آج ایشیائی اس اڑتیسویں عرض البلد کے ڈھونگ سے اچھی طرح واقف ہو چکے ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ امریکی سپاہی لڑائی اڑتیسویں عرض البلد کو بچانے کے لیے نہیں بلکہ اس دوسرے عرض البلد کو بچانے کے لیے بھیجے جارہے ہیں جو ایشیا کے دل کو ایک سرے سے چیرتا ہوا دوسرے سرے تک جا نکلتا ہے۔ یہ ظالم سامراجی عرض البلد جس ملک سے گزرتا ہے، اس کے دو ٹکرے کر دیتا ہے۔ فلسطین سے گزرتا ہے تو فلسطین، اسرائیل اور عرب میں منقسم ہو جاتا ہے، برما سے گزرتا ہے تو ہندوستان بھارت اور پاکستان میں تقسیم ہو جاتا ہے، برما سے گزرتا ہے تو کیرن ریاست اور ایرادری ریاست میں تقسیم ہونے لگتا ہے، انڈونیشیا سے گزرتا ہے تو ویت نام کے مقابلہ پر بودائی کی کٹ پُتلی حکومت ظہور میں آجاتی ہے، یہ عرض البلد ایشیائی قوموں کو ملاتا نہیں ہے، کمزور کرتا ہے تاکہ وہ بدستور محکوم رہیں اور سامراجیوں کے تسلط کے نیچے دبی رہیں. مغربی سامراج پہلے تو ایشائیوں میں سے اپنے لیے دلال اور کٹ پتلیاں ڈھونڈتا ہے، انہیں اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے کے لیے انہیں سچے قومی رہنما بناتا ہے اور دوسرے محب وطنوں کو ’’کیمونسٹ‘‘ کہہ کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر ان نام نہاد سچے قومی رہنماؤں کی چھتر چھایا میں اپنی سامراجی لوٹ کھسوٹ جاری رکھتا ہے۔ جنگ سے پہلے اور جنگ کے بعد بھی یہی ہوتا رہا ہے، لیکن جنگ کے بعد جب پورے ایشیاء میں قومی تحریکیں زور سے ابھریں تو سامراج نے زیر زمیں پناہ لی اور اپنے دیسی ایجنٹوں اور دلالوں کو اوپر اچھال دیا۔ لیکن جب ان سے بھی کام نہ بنا تو خود بندوق لے کر کوریا میں کھڑا ہو گیا۔ یہ سامراج کی آخری لڑائی ہے دوست! اسی لیے یہ بندوق کی گولی آج تمہارے سینے کے پار ہوئی ہے۔

میں چاہتا ہوں کہ تم اس معاملے کو اچھی طرح سمجھ لو اور تمہاری طرح دوسرے ہزاروں لاکھوں امریکی نوجوان بھی اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیں کیونکہ ان کی اس سوجھ بوجھ پر دنیا کے امن کا دارومدار ہے. آج امریکی عوام اور امریکی نوجوان پر ایک بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ اور میں اُمید کرتا ہوں کہ یہ سب لوگ اس کی تاریخ کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ضرور ہماری مدد کریں گے کیونکہ یہ لوگ ایک ایک کر کے لاکھوں پرائیویٹ شیڈرک بن جاتے ہیں۔ اس لیے انہیں اپنے امریکی حاکموں سے جنہوں نے کوریا میں یہ جنگ چھیڑی ہے ضرور یہ کہنا چاہیے کہ وہ اس جنگ میں سامراج کے ساتھ نہیں ہیں بلکہ ایشائی عوام کے ساتھ ہیں۔ انہیں ضرور یہ کہنا چاہیے کہ ہم ایشاء میں کسی ’’ازم‘‘ کے خلاف نہیں لڑنا چاہتے ، چاہے وہ ’’کیمونزم‘‘ ہو یا’’ بدھ ازم‘‘۔ یہ ایشاء والوں کے لیے ہے، وہ جس ’’ازم‘‘ کو چاہیں رکھیں، ماریں، بڑھائیں، پھیلائیں، وہ اپنی قسمت کے مختارکُل ہیں اور اگر امریکہ دوسری قوموں کی قسمتوں کا کُل مختار بننا چاہتا ہے تو اس بے انصافی کی حمایت ہرگز نہیں کریں گے. ہم سامراج کے نئے غلام نہیں بنیں گے، نہ یورپ میں، نہ امریکہ میں، نہ کوریا میں، نہ ایشیا کے کسی میدان میں ، عوام کو خود ان کی تقدیر بنانے دو پھر دیکھو وہ کتنی اچھی تقدیر بناتے ہیں۔

میرے خط سے تم کہیں یہ نہ سمجھ لو کہ مجھے تمہاری موت کا افسوس نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے بات صرف یہ ہے کہ آج میری آنکھوں میں تمہارے لیئے آنسو نہیں ہیں میں اپنے آنسو بہت عرصہ ہوا بہا چکا ۔ میں نے اپنے دل میں اتنی غریبی اور سماجی بے انصافی دیکھی ہے کہ اسے دیکھ کر میری آنکھوں کے آنسو ختم ہو گئے ہیں، مگر میں تمہاری موت پر افسردہ اور سوگوار ہوں۔ میرے دل میں تمہارے قاتلوں کے خلاف غم اور غصّے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، لیکن تمہارے اصلی قاتل کون ہیں؟ کیا وہ شمالی کوریا کا سپاہی جس نے اپنے اور اپنی بیوی اور بچوں کی حفاظت کا خیال کرتے ہوئے تمہارے سینے میں گولی اتار دی یا کوئی اور یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے سنو گے؟

روس اور جاپان کے درمیان 1905میں جب لڑای ہوئی تھی اور جاپان ساری مخالفتیں طے کرتا ہوا چین میں گھس گیا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے کہ فتح مند جاپان کی فوجوں کے ہمراہ ایک نوجوان امریکی لفٹننٹ بھی تھا جو ویسٹ پائینٹ امریکہ سے بھیجا گیا تھا. اس فوجی افسر کا نام میک آرتھر تھا. یہ لفٹنٹ بظاہر ایک غیر جانب دار فوجی مبصر کی حیثیت سے جاپانی فوجوں کے ہمراہ سفر کر رہا تھا۔ اب جب میں اس سارے واقعے پر غور کرتا ہوں تو مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شائد یہ لفٹنٹ میک آرتھر 1905میں بھی امریکہ سامراجی اتر یورپ کے ایشاء میں اپنے لئیے نئی تجارتی منڈیاں ڈھونڈ رہے تھے اور ایشیاء کے ملکوں پر اپنی حریصانہ نگاہ جمائے بیٹھے تھے. مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ 1905میں لفٹنٹ میک آرتھر جس مشن پر آیا تھا وہ بڑی مشکل سے 1945 میں پورا کرسکا۔ مجھے یہ گمان سا ہوتا ہے کہ 1905میں جب وہ امریکی لفٹنٹ کوریا کے سمندر میں اپنے جہاز پر سوار تھا تو وہ تمہاری ولادت سے بہت پہلے تمہاری موت کا حکم سنا گیا تھا۔ آج جب میں اس امر پر غور کرتا ہوں تو اس طرح ٹھنڈے دل سے غور کئے ہوئے تمہارے قتل پر میری آنکھوں میں آنسو نہیں آتے، غصے کے شعلے بلند ہوتے ہیں ان جابروں کے خلاف جنہوں نے انیس اور بیس برس کے امریکی لڑکوں کو کوریا کی قتل گاہ میں جھونک دیا۔ ان لڑکوں کو ابھی اسکولوں اور کالجوں میں پڑھنا تھا۔ انہیں تو جنگ کا کھیل نہیں فٹبال اور ہاکی ٹینس اور بیس بال کھیلنا تھا۔ ان کے سامنے ان کی پوری جوانی تھی جسے بسر کرنے کا انہیں پورا پورا حق تھا۔ یہ حق جس نے تم سے چھینا ہے میں اپنی آنکھوں میں آنسو لے کر اس کے خلاف نہیں لڑ سکوں گا، اس لیے آج تمہارے لیے میری آنکھوں میں آنسو نہیں بہتے۔

مگر اس سے کہیں یہ نہ سمجھنا کہ مجھے تمہاری موت کا افسوس نہیں ہے شائد تمہارے جنر ل میک آرتھر کو بھی تمہاری موت کا اتنا افسوس نہیں ہو گا جتنا مجھے ہے۔ کیونکہ جنرل میک آرتھر کے لئے تمہاری حیثیت اس کے فوجی نقشے پر ایک چھوٹے سے پن سے زیادہ نہیں ہے۔ لیکن میں جانتا ہوں اور اسے اس سے پہلے بھی ایک بار کہہ چکا ہوں کہ جب میدان جنگ میں ایک سپاہی مرتا ہے تو کیا ہوتا ہے۔

جب سپاہی کینتھ شیڈرک عمر 20 سال ساکن مغربی ورجینیا امریکہ، کوریا کے میدان جنگ میں مر گیا۔ کوئی تاج کی طرح خوبصورت عمارت مر گئی، سائنس کی کوئی نئی ایجاد علم و فن کا کوئی لافانی خیال مر گیا ، جو آج تک کسی نے دریافت نہیں کیا۔ اور ساری دنیا کو اپنے پیچھے غمزدہ اور سوگوار چھوڑ گیا۔ شاید شیڈرک کی موت جنرل میک آرتھر کے لیے ایک پن کا نقصان بھی نہیں ہے، لیکن آج وہاں جہاں ان سے محبت کرنے والے ایماندار لوگ بستے ہیں، وہ سچے دل سے شیڈرک کی موت کے لیے سوگوار ہیں، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ یہ موت بے کار تھی اس لیے کوئی اچھا مصرف نہیں تھا۔ کیونکہ یہ دھرتی ہماری جس پر آج اس کاحال اتنا پتلا ہے اپنی تمام صحرائی خامیوں کے باوجود بڑی ہی پر کشش اور خوبصورت جگہ ہے۔ یہاں پر زرخیز کھیت اور وادیاں ہیں جن میں گیہوں، جو، باجرا، مکئی ، دھان، روئی، پٹ سن کی کھیتیاں لہلہاتی ہیں، یہاں پر سینکڑوں ہزاروں ایسی گھاٹیاں ہیں اور اونچے اونچے کوہستانی سلسلے ہیں جن کی گود میں زمرد کی طرح چمکتے ہوئے جنگل کھڑے ہیں اور جن کی چٹانیں سونے، چاندی، جست اور ابرق سے جگمگا رہی ہیں۔

یہاں پر میلوں تک پھیلے ہوئے دریا اور وسیع جھیلیں ہیں جو اپنی کنواری چھاتیوں میں بجلی کی قوت اور گرمی کو مامتا کے دودھ کی طرح چھپائے ہوئے ہیں۔ یہاں ہم سب لوگ آرام سے اور سکون سے اور بڑھتی ہوئی ترقی کے ساتھ رہ سکتے ہیں، یہ دھرتی اتنی امیر ہے، اتنی پیاری ہے، اتنی دولتمند ہے۔ اگر ہم کوشش کریں تو وہ ہماری بڑی سے بڑی خواہشوں کو پورا کرنے کی قوت رکھتی ہے۔

اور اگر کہیں ہم اس دنیا سے پرے کائنات کے دوسرے گوشوں پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں لاکھوں شمس و قمر، کروڑوں ستارے فضاء بسیط میں گھومتے نظر آئیں گے اتنی ان گنت دنیائیں کہ اگر تھوڑی کوشش کرے تو ہر انسان کے لیے ایک ستارہ مل سکتا ہے۔ کائنات کا یہ پھیلا ہوا عظیم الشان لا متناہی سلسلہ ہزاروں سالوں سے انسان کی جرات آزمائی کا منتظر ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم کوریا کے ایک چھوٹے سے ٹیلے پر لڑنے کی بجائے اپنی نگاہیں زبان و مکان کی آخری حدوں تک پھیر دیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم کروڑوں اربوں روپیہ ایٹم بم اور ہائیڈروجن کی خطرناک اور انسان کُش بارود میں تباہ نہ کرتے ہوئے اس روپیہ کو علم اور سائنس اور فن کے صحیح مصرف میں لائیں تو انسان سچ مچ انسان بن کے کائنات کے مرکز میں کھڑا ہو سکتا ہے۔

یہ میرا گہرا اعتقاد ہے اور کامل یقین ہے اور جب میں یہ چند آخری سطریں تمہیں لکھتا ہوں تو میری نگاہ ایک لمحہ کے لیے سامنے کی کھڑکی سے باہر کے منظر پر جاتی ہے اور جہاں میں بیٹھا ہوں وہاں سے مجھے فطرت کا ایک حسین اور پر سکون منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ پنکھ کی طرح پھیلے ہوئے ناریل کے سبز و شاداب پتے تاڑ کے لانبے بانکے کھمبوں پر جھولتے ہیں، جو اندھیری جھاڑیوں سے فراز و نشیب میں گڑے ہوئے دور تک چلے گئے ہیں ان کے پرے درار کی وہ خوبصورت پہاڑیاں اور ٹیلے مون سون کی دھند میں کتنے ہی انجانے آسمانوں کی نیلاہٹیں لیے جگمگا رہے ہیں، اور میں سوچتا ہوں دور ان ٹیلوں میں سے مستور ، اور مجھے تمہارا خیال آتا ہے۔

سپاہی کینتھ شیڈرک، مغربی ورجینیا کے رہنے والے، اور مجھے خیال آتا ہے ان دوسرے سینکڑوں شیڈرکوں کا جو تمہاری طرح 20 سال کے ہیں اور مغربی ورجینیا کے رہنے والے ہیں اور کنساس کے رہنے والے ہیں اور اوہیو اور سننائی، ٹیکسانہ، بوسٹن اور شگاگو کے رہنے والے ہیں۔ سپاہی کینتھ شیڈرک جو ابھی بیس سال کے نہیں ہوئے جو ابھی انیس اٹھارہ، سترہ، سولہ برس کے ہیں اور جو میرا بچہ ہے اور میں سوچ سوچ کے کہتا ہوں نہیں، نہیں ایسا کبھی نہیں ہو گا، وہ اس میں سے پھر کوئی غلام نہیں گھڑ سکیں گے ۔ وہ اس کے ہاتھ میں بندوق تھما کے کسی ٹیلے پر قتل کرنے کے لیے نہیں بھیج سکیں گے۔ اس لیے جب میں اپنی کھڑکی کے باہر دور اس ٹیلے پر تمہاری لاش دیکھتا ہوں تو اپنے لیے ایک فیصلہ کرتا ہوں۔ امن۔ امن آج اور ابھی، امن میرے زمانے میں، امن ہر زمانے میں۔ !

Leave a Reply

Your email address will not be published.