موجودہ کووڈ-19 دنیا اور بلوچ طلبہ کے مسائل۔ اداریہ

اداریہ

بلوچ  اسٹوڈنٹس  آرگنائزیشن 

کورونا وائرس کے وبا کے بعد دنیا بھر میں جو معمول زندگی ٹوٹا ہے اس نے عوام الناس پر شدید سماجی و نفسیاتی اثرات ڈالے ہیں۔ اور نئی معمول کے مستحکم ہونے تک متعدد سماجی مسائل کا سر اٹھانا ایک فطری امر ہے۔

اسی اثناء میں ہمیں نظر آرہا ہے کہ ترقی یافتہ دنیا سے لیکر ترقی پذیر ممالک میں ہیجان کی کیفیت برپا ہے۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ سماج میں نسلی تعصبات سر اٹھا رہی ہیں, تو یورپ اور لاطینی امریکہ میں بے روزگاری اور بھوک کا جن آپے سے باہر ہو رہا ہے۔ اسی طرح افریقہ و ایشیاء میں وسائل کی قلت کے ساتھ مفلوک الحال عوام نان شبینہ کا محتاج ہو گئے ہیں۔

مذکورہ بالا تمام عمومی مسائل کے ساتھ بلوچستان کے طلبہ کو اس وقت ایک مخصوص سنگین مسئلہ درپیش ہے جس سے وہ اپنے مستقبل کو تاریکیوں میں ڈوبتے محسوس کر رہے ہیں۔

کووڈ-19 کے پیش نظر ترقی یافتہ دنیا کی طرح پاکستان نے بھی لاک ڈاؤن کی پالیسی پر عملدرآمد کرتے ہوئے شہریوں کی تحفظ کا پالیسی اپنایا جس کا باعلم سماجی حلقوں نے خیرمقدم کیا اور مل کر اس وبا پر قابو پانے کی سعی کی۔

لاک ڈاؤن کی وجہ سے دیگر شعبہ جات کے ساتھ تعلیمی ادارے بھی بند کر دیئے گئے اور تمام طلبہ جو اپنے آبائی حلقوں سے نکل کر بڑے شہروں میں زیر تعلیم ہیں وہ سب واپس اپنے اپنے حلقوں میں لوٹ آئے۔ اسی دوران ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان نے اعلان کیا کہ بچوں کی سکولنگ اب آن لائن ہوا کرے گی اور ورچوئل سکولنگ کے ذریعے وہ اپنی ڈگریاں مکمل کریں گے۔

ایچ ای سی کی مذکورہ فیصلے نے طلبہ کو حیران و پریشان کر دیا کہ وہ اس جدید تکنیک سے شہروں میں رہتے ہوئے تو کسی طرح استفادہ حاصل کر سکتے تھے مگر بلوچستان کا جغرافیہ جو کہ منتشر آبادی پر مشتمل ہے اور اس صوبے کے چند بڑے شہروں کے علاوہ کہیں پر بھی ایسا معیاری انفراسٹرکچر موجود نہیں ہے جس سے طلبہ اپنی تعلیم کو آن لائن سورسز کے ذریعے جاری رکھ سکیں۔

اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہیکہ آج اکیسویں صدی میں بھی بلوچستان کے مضافات بجلی کی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ انٹرنٹ تو کجا ٹیلیفون لائن بھی اکثریتی بلوچستان میں دستیاب نہیں ہے۔ اور جن شہر نما چھوٹے قصبوں میں ٹیلیفون سروسز ہیں وہاں انٹرنٹ کی سہولت جدید تکنیک کی معیار پر قطعاً پورا نہیں اترتی۔

انٹرنٹ کی ضرورت کے پیش نظر بحالت مجبوری اگر طلباء اپنے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کیلئے ان حالات میں شہروں کا رخ کریں تو انہیں ٹرانسپورٹ کے مشکلات کے ساتھ خورد و نوش اور رہائش کے بیش بہا مسائل کا سامنا ہے جبکہ طالبات کیلئے ہجرت کا یہ آپشن بھی خارج از امکان ہے۔

مذکورہ بالا ان تمام مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے سٹوڈنٹس گزشتہ ایک مہینے سے زائد کے عرصے سے بلوچستان کے طول و عرض میں سراپا احتجاج ہیں تاکہ کہیں سے ان کی سنوائی ہو مگر مجال ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں سے کوئی ٹس سے مس ہو۔

صبر تحمل اور بردباری کے تمام جمہوری آپشن جب ناکام ہوئے تو گزشتہ روز طلباء نے کوئٹہ پریس کلب سے ایوان اقتدار کی جانب ایک پرامن ریلی کا اہتمام کیا تاکہ معزز حکمرانوں کو اپنی مشکلات سے آگاہ کریں۔ تو عوام کی جان و مال کے محافظ سپاہیوں نے تمام جمہوری اقدار اور آئینی حقوق کو پامال کرتے ہوئے پرامن طلبہ پر ڈنڈے برسائے اور 70 سے زائد طلبہ و طالبات کو گرفتار کرکہ جیلوں میں بند کر دیا گیا۔ یہ وہ عمل تھا کہ جس سے بلوچستان واسیوں اور ارباب اختیار کے درمیان بہت بڑی دوری پیدا ہو چکی ہے اور ایسے ریاستی افعال سے دوری مزید بڑھتی جا رہی ہے۔

عوام اور ریاست کے درمیان جو معاہدہ طے ہے وہ ملک کا آئین ہے اور آئین نے عوام کو یہ حق دیا ہیکہ وہ اپنے ضرویات و سہولیات کی حصول کیلئے پرامن احتجاج کا حق استعمال کریں۔ مگر کوئٹہ پولیس نے جو حرکتیں مظاہرین کے ساتھ کیں وہ ملک کے آئین کی سنگین بیحرمتی کے ساتھ جمہوری اقدار کی پامالی ہے, جسکی شدید الفاظ میں مذمت کے ساتھ تدارک کیا جانا چاہیئے۔

بلوچستان کے طلبہ و طالبات سادہ الفاظ میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے حکم کی تعمیل کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے جس میں ایچ ای سی کا فیصلہ ہے کہ طلبا اپنی تعلیم کو کیمپس سے ورچوئل گراؤنڈ پر شفٹ کریں, مبادہ کہ ایچ ای سی نے زمینی حقائق کا جائزہ لیئے بغیر مذکورہ فیصلہ صادر فرمایا ہے مگر اس حکم کی تعمیل کے لئے جو لوازمات درکار ہونگے انکا دستیاب ہوئے بغیر عملدرآمد ممکن ہی نہیں ہے۔ اسی اثناء میں سٹوڈنٹس معزز حکام بالا سے گوش گزار کر رہے ہیں کہ انہیں بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ تعلیمی سلسلے کو جاری رکھا جا سکے۔

مطالبات میں مندرجہ زیل نکات شامل ہیں

رواں تعلیمی سال کو معطل کرکہ تعلیمی بجٹ کو ڈبل کیا جائے اور تعلیمی انفراسٹرکچر کی تعمیر پر سرف کیا جائے, جس میں ملک کے تمام شہروں, دیہات اور قصبوں میں ہائی سپیڈ انٹرنٹ سروسز کی بحالی کیساتھ طلبہ کو لیپ ٹاپ اور ڈیجیٹل ڈیوائسز فراہم کی جائیں

فیسوں میں ستر فیصد کمی کی جائے، سرکاری و پرائیویٹ ہاسٹلز کی فیس ختم کی جائے اور آن لائن کلاسز کی مد میں ادا کی گئی فیس اسی تناسب سے واپس کی جائے

جن طلبا کا کورس ورک مکمل ہو چکا ہے انہیں اگلے سمسٹر میں پروموٹ کیا جائے

تدریسی عملے کو معیاری تربیت فراہم کرکہ انہیں ورچوئل سکولنگ کی نئی تبدیلی سے ہم آہنگ کیا جائے

تمام یونیورسٹیوں میں آن لائن کلاسز کے نظام کو بہتر اور معیاری لرننگ مینیجمنٹ سسٹم متعارف کروا کر مؤثر بنایا جائے

تعلیمی اداروں کو ایس-او-پیز کے تحت کھولنے کا آپشن قابل عمل و دانشمندانہ فعل نہ ہوگا کیونکہ ملک کے اکثریتی طلبہ دیہی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں, تو انہیں سفر کی دشواری کے ساتھ شہروں میں رہائش اور خوردونوش کے مسائل کا سامنا بھی ہوگا. لہذا کووڈ19 کے پیش نظر تعلیمی اداروں کو مکمل بند رکھ کر زندگیوں کے تحفظ کو ترجیح دی جائے۔
نوٹ: اگر حکام بالا ایس او پیز کے تحت ادارے کھولنے کی طرف جائیں گے تو مندرجہ بالا تمام سہولیات مفت فراہم کی جائیں

تعلیمی اداروں میں جمہوری اقدار اور طلبہ یونین بحال کی جائیں

Leave a Reply

Your email address will not be published.