بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا مرکزی اجلاس زیر صدارت مرکزی چیئرمین ظریف رند منعقد ہوا۔ تنظیمی رپورٹ، ملکی و بین الاقوامی تناظر، تنظیمی امور سمیت دیگر اہم ایجنڈے زیر بحث رہے اور اہم فیصلہ جات لیئے گئے۔

رپورٹ: اورنگزیب بلوچ، مرکزی سیکریٹری اطلاعات و نشریات

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی مرکزی کابینہ ( ایکسٹنڈڈ-مرکزی کمیٹی) کا اجلاس مورخہ 21 جولائی، شال میں زیرصدارت مرکزی چیرمین ظریف رند منعقد ہوا جبکہ اجلاس کی کاروائی سیکریٹری جنرل چنگیز بلوچ نے چلائی۔

اجلاس میں مختلف ایجنڈے زیر بحث رہے، جن میں تنظیمی رپورٹ، عالمی و علاقائی تناظر، تنظیمی امور سمیت تنقید برائے تعمیر اور آئیندہ کا لائحہ عمل اجلاس کی بحث کا حصہ رہے۔

ملکی و بین الاقوامی تناظر پر بحث کرتے ہوئے کہا گیا کہ عالمی نظام اپنی منطقی انجام کے پیش نظر شدید بحران کا شکار رہا ہے مگر کورونا وبا نے اس کے تمام تر پوشیدہ بحرانات کو شدت کے ساتھ آشکار کر دیا ہے جس سے دنیا بھر میں شدید عدم استحکام جنم لے چکی ہے اور دنیا کی معمول ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی ہے۔

سرمایہ داری دنیا کے مرکز امریکہ میں بلیک لائیو میٹرز موومنٹ نظام کی غیر منصفانہ اور متعصبانہ کردار کا واضح ثبوت ہے جوکہ فقط امریکہ نہیں بلکہ یورپ سے لیکر دیگر ترقی یافتہ دنیا میں مختلف شکلوں میں اپنا اظہار کر رہی ہے۔ آج کی جدید دنیا میں صحت کی بنیادی سہولت کیلئے انسانوں کو تذلیل سے گزرنا پڑ رہا ہے جبکہ روزگار چھننے کی وجہ سے بھوک کی وبا کورونا سے زیادہ ازیت ناک موت دے رہی ہے۔ ان تمام تر مصائب کے ساتھ سامراجی حواص باختہ قوتیں خونی جنگوں کے ذریعے اپنے منافعوں میں اضافے کر رہے ہیں جبکہ انسانیت گراوٹ کی آخری سطحوں کو چھو رہی ہے۔

ترقی یافتہ دنیا کی برباد صورتحال کے اندر بلوچستاں جیسے نوآبادیوں کی کیفیت انسانی سماجوں کی کسی بھی معیار پر کہیں پورا نہیں آتی۔ لوٹ کھسوٹ، کشت و خون، عدم تحفظ، بھوک و افلاس، بیروزگاری، صحت و تعلیم کی سہولیات کی عدم موجودگی گویا یہی بلوچ وطن کے واسیوں کی مقدر بنا دی گئی ہیں۔ جبکہ سماجی ڈرائیونگ فورسز جوکہ سیاسی جماعتیں و تنظیمیں ہوا کرتی ہیں ہمارے ہاں یہ اپنی تاریخی کردار کو ادا کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں جس کی بنیادی وجہ سیاست کو سماجی سائنس کے طور پر ڈیل کرنے کے بجائے پاپولر رجحانات کی غیر انقلابی رویوں کے پیچھے چل دوڈنا بنا دیا گیا ہے۔ نہ صرف یہ کہ سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں خود کنفیوژن کا شکار ہیں بلکہ عوام کو بھی سطحی چیزوں میں الجھا کر بری طرح کنفیوز کیا گیا ہے جس سے کوئی بھی درست سمت کا تعین کرنا خارج از امکان معلوم ہوتا ہے۔

ماس پالیٹکس کی طرح طلبہ سیاست بھی سطحیت کی نظر ہو چکی ہے اور پاپولر ٹرینڈز کی پیٹی بورژوا رجحانات میدان پر حاوی ہو چکے ہیں۔ باقائدہ نظریاتی پروگرام اور درست سیاسی لائن سے انحراف کرتے ہوئے اکثریتی طلبہ تنظیمیں عارضی و مصنوعی ایکٹوزم کرکہ خود میں مگن ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے مستقبل کی کوئی روشن راہ کی امیدیں ظاہر نہیں ہوتیں۔

ایسے میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا فکری کام انتہائی اہمیت کا حامل ہے مگر چیلینج بہت بڑھ چکا ہے۔ جب نظریاتی سیاست اور سائنسی پروگرام کو ہم پلہ تنظیمیں مذاق سمجھیں تو انکی فکری پستی یہیں سے واضح ہو جاتی ہے۔ البتہ بی ایس او پاپولزم کے بجائے فکری جدوجہد کو اپنا نصب العین سمجھتی ہے اور نظریات سے انحراف کرکہ سطحی حاصلات کے پیچھے چل دوڈنے کو غداری سے نتی مانتی ہے۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن شوشن کلب کے بجائے ایک کیڈرساز ادارہ ہے اور اسے کیڈرسازی کے انقلابی عمل کی تابع رکھنا ہی قیادت کی اولین انقلابی ترجیح ہے۔

بی ایس او کی مسلسل بڑھتی قوت ہی فکری پروگرام کے فتح کی جانب گامزن ہونے کا ثبوت ہے۔ اور جوان سال کیڈرز کی تاریخی زمہ داری ہے کہ وہ اس تسلسل کو اپنے بلند حوصلوں کے ساتھ آگے بڑھاتے رہیں اور بلوچ وطن میں موجود قیادت کے بحران پر قابو پا کر قوم کی ڈرائیونگ فورس کی تشکیل کے عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیں۔

تنظیمی امور کے ایجنڈے میں مختلف حکمت عملیوں ، کمی کوتاہیوں اور پرنے اہداف کا جائزہ لیتے ہوئے نئے اہداف متعین کیئے گئے۔ جبکہ لٹریچر ، پبلیکیشن ، سٹڈی سرکلز ، مربوط رابطہ کاری، نئے سٹرکچرز کی تعمیر و مضبوطی اور ہم خیال تنظیموں کے ساتھ اتحاد و اشتراک کو اولین ترجیحات میں شامل کیا گیا۔

علاوہ ازیں شال اور خضدار زون کی تشکیل کو حوصلہ افزاء قرار دیتے ہوئے زونل سنگتوں کو انقلابی داد بھیجے گئے۔

مرکزی نشستوں کا جائزہ لیکر مرکزی ممبران کی غیر فعالی کے نوٹس کے پیش نظر مرکزی کمیٹی ممبران کی دو نشستوں کو خالی کر دیا گیا جس میں سراج بلوچ اور علی دوست بلوچ شامل تھے۔

مرکز کو سنگت زہیر بلوچ کا موصول شدہ استعفیٰ نامہ کا جائزہ بھی لیا گیا اور اسے اس افسوس کے ساتھ قبول کیا گیا کہ تنظیم کا ایک اہم سنگت اس سفر میں بچڑ گیا اور تنظیم اسے جوڈے رکھنے میں ناکام رہی۔

آخر میں تمام ممبران کو مرکز کی جانب سے سخت تاکید کی گئی کہ وہ تنظیمی پروگرام اہداف اور حکمت عملیوں کا انقلابی جذبات کے ساتھ پابندی کریں اور بی ایس او کی فکری کارواں کو اس تاریک عہد کا روشن مینار بنا دیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.