مزدور کی زندگی

تحریر: لالا ماجد 

پرندوں کی چہچہاہٹ نے صبح کا آغاز کر دیا اور رات دیمے دیمے چپ جانے کو تھا سورج نکلنے کو ایک سے ڈیڑھ گھنٹے باقی تھے کہ جب مریم نے اپنے شوہر پرویز کو اٹھانا شروع کیا اور باورچی میں جا کر سلیمانی چائے کے دو کپ بنانے میں مصروف ہو گئی۔

پرویز نے اٹھ کر اپنا چادر اپنے کندھے پر رکھا اور سمندری ہوا کھانے میں مگن رہا کہ مریم چائے لے کر آئی اور باہر چھوٹے سے سہن میں بیٹھ کر دونوں کچھ سوچھے چائے پینے لگے۔ پرویز گرم چائے اس طرح پی گیا جیسے سرد اور گرم کا کچھ پتہ ہی نہ ہو۔

سورج اب طلوح ہونے کو تھا اور سرد ہوائیں گرم پڑھنے لگے تھے۔ پرویز غسل کرنے کیلئے گیا تو پتہ چلا کہ پانی ہی نہیں ہے بس منہ دھو کر نکل گیا اور جلدی جلدی میں مریم کو خداحافظ کہہ کر کام کیلئے نکل پڑا۔ مریم نے پیچھے سے پرویز کو آواز دی تو پرویز واپس آیا۔ مریم ایک روٹی جو رات کی تھی پرویز کے جیب میں ڈال کر بولی کہ رستے میں کھا لینا۔ پرویز نے مسکراتے ہوئے بولا اچھا میں چلا اپنا خیال رکھنا اور واپسی میں پانی کا کچھ بندوبست بھی کرتا ہوں۔

پرویز ایک فیکٹری میں بطور مزدور کام کرتا تھا جہاں اسے کبھی دس ہزار تو کبھی پندرہ ہزار ملتے تھے جیسے ہی پرویز فیکٹری کے گیٹ میں داخل ہوا تو وہاں سارے مزدور ایک ایک کر کے اپنی حاضریاں لگا رہے تھے۔ لگ بگ چالیس سے پچاس مزدور جن میں پرویز بھی شامل تھا جن کی باری آنے ہی والی تھی کہ ایک افسر نے اعلان کیا؛ آج جتنے مزدوروں کی ضرورت تھی وہ پورا ہوا ہے باقی جا سکتے ہیں۔ یہ اعلان سن کر جتنے بھی مزدور رہتے تھے سب کا رنگ اتر گیا، مگر کوئی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ اگر کچھ کیا جاتا تو ہمیشہ کیلئے اس فیکٹری کا گیٹ ان کیلئے بند کر دیا جاتا۔

پرویز اور دوسرے مزدور مایوس ہو کر گیٹ سے باہر نکلے اور اپنے اپنے گھروں کے طرف چلے۔ پرویز کے ساتھ اس کا دوست بھی تھا جس نے مزاحیہ لہجے میں کہا پرویز آج تو پانچ سو روپے گئے اور خود ہی ہنسنے لگا لیکن یہ ظاہر تھا کہ وہ ہنسنا نہیں چاہتا تھا۔ پرویز نے کہا کہ ہر مہینے پانچ سے چھ بار ہر مزدور کے ساتھ ایسا ہوتا ہے اتوار کی چھٹیوں کو چھوڑ کر۔۔۔

خیر، گھر جاتے ہوئے پرویز نے جیب سے روٹی نکال کر دو حصے کیئے اور ایک حصہ خود اور دوسرا دوست کو دے دیا۔پرویز گھر آیا تو مریم خود سمجھ گئی کہ آج پھر اسے واپس کر دیا گیا ہے اس لئے اس نے کچھ نہیں پوچھا لیکن آج پرویز کچھ افسردہ اور مایوس سا تھا مریم چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتی تھی کیونکہ ایک گھر میں اگر دن کے پانچ سو آنا بھی بند ہو جائے تو وہاں دلاسہ دے کر بھی کچھ خاص فائدہ نہیں ہوتا۔

گھر میں آج پانی نہیں ہے، گیس تو ویسے بھی کاٹ لیا گیا ہے، مکان کا کرایہ اور راشن پرویز تو انہی سوچوں میں اس قدر پریشان تھا کہ خود پہ ہی غصہ کرتا اور آسمان کے طرف دیکھ کر آنکھیں نم کرتا۔

مریم پرویز کے پاس آئی تو پرویز کو دیکھ کر رونے لگی اور سب ٹھیک ہوگا اس طرح کے جھوٹے تسلی دینے لگی۔ پرویز نے مریم کے ہاتھوں کو دبایا اور کہا کہ مریم سب کچھ ٹھیک ہی ہے بس اس دنیا میں صرف مزدور ہی ٹھیک نہیں ہے کیونکہ جب ہم مزدور ٹھیک ہونگے تو ہمارے دنیاوی خدائیں ہم پر اور برسنے لگیں گے۔ اور اس سے بھی زیادہ تکلیف سے گزاریں گے۔ کبھی کبھی تو میں سوچتا ہو جس طرح ہم سے پہلے مزدوروں کے اوپر جو ظلم ہوا کرتے تھے وہ آج اکیسویں صدی میں ہم پر ہو رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہم غریبوں کو اکیسویں صدی میں گھسیٹ کر لایا گیا ہو یا تو ہماری لئے خوش رہنا حرام ہے یا عظیم گناہ ہے جب تک خداؤں کی تعداد میں اضافہ ہوگا تو مزدور طبقہ کیسے ٹھیک ہو گا۔ مریم پرویز کے کچھ ہی باتیں مشکل سے سمجھ گئی اور اندر ہی اندر رو رہی تھی تاکہ پرویز اسے روتے ہوئے نہ دیکھے پرویز نے مریم سے کہا کہ کچھ دن کیلئے اپنی ماں کے پاس جاکر اس کی خدمت کرو اور میں یہاں کوئی اور روزگار تلاش کرتا ہوں جس سے شاید کچھ آسانی پیدا ہو۔

مریم کو اس کی ماں کے گھر پہنچھا کر وہ واپس شہر آیا اور یہاں وہاں روزگار کی تلاش میں ٹھوکریں کھاتا رہا لیکن بجائے کچھ حاصل ہوتا اسے یہ خبر آئی کے جس فیکٹری میں وہ کام کرتا ہے وہ فیکٹری کسی دوسرے شہر منتقل ہو رہا ہے یہ خبر سن کر اس کی ساری امیدیں ختم ہی ہو گئیں۔ ایک ہفتے تک اپنے گھر میں فارغ بیٹھ کر آخر کار پرویز نے خودکشی کرلی اور ایک مزدور اس طرح دنیا کے ظلم ،ناانصافیوں سے فارغ ہوگیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.