بی ایس او بلوچ قوم کا حافظہ ہے

تحریر: ظریف رند

انقلاب روس کے رہبر اور عظیم مارکسوادی استاد ولادیمیر ایلیچ الیانوف لینن نے کہا تھا کہ ‘محکوم عوام کی یاداشت انکی انقلابی تنظیم ہوتی ہے’۔ اسی لئے حکمران طبقہ ہمیشہ انقلابی تنظیم کو مٹا دینے کے در پہ ہوتی ہے تاکہ محکوم عوام کی مجموعی یاداشت کو مٹا دے اور وہ بے راہ بٹھکتی رہے۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو اگر بلوچ قوم کی یاداشت کہا جائے تو قطعی غلط نہیں ہوگا۔ یہی وہ ادارہ ہے جس نے انگنت نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ بیشمار تجربات کا مجموعہ اس میں پیوستہ ہے جس میں غلطیاں بھی شامل ہیں اور کامیاب حکمت عملیوں کا سنہرا سفر بھی ہے۔ تاریک ادوار میں روشن دیا کے مانند بی ایس او بلوچ فرزندوں کیلئے مشعل راہ کی حیثیت سے رہبری کرتی رہی ہے۔ نصف صدی سے زائد کی کھٹن اور قابل فخر سفر کے اندر بی ایس او بلوچ قوم کی رگ و جان میں رچ بس چکی ہے۔ قومی جدوجہد کی ہر پیچ و تاب بی ایس او کے کردار و عمل کے بغیر نامکمل ہے۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے ہمیشہ سے بلوچ سماج کی ڈرائیونگ فورس کا کردار ادا کیا ہے۔ ہر تحریک میں صف اول پر بی ایس او کا مشعل بردار پرچم بلند رہا ہے۔ قربانی کے ہر تقاضے پر کارواں کے نڈر سپوتوں نے لبیک کہہ کر دیدہ دلیری سے خود کو پیش کیا ہے۔

دھرتی کی دفاع سے لیکر دھرتی ماں کے سپوتوں کی تربیت و سربلندی تک کیلئے بی ایس او ہر اول دستہ رہی ہے۔ نا صرف بلوچ وطن بلکہ دنیا بھر کے محکوموں کے دفاع اور سماج وادی انقلاب کے تکمیل کی فکری پروگرام کے سبب بی ایس او دنیا بھر میں اپنی انقلابی چھاپ منوا چکی ہے۔

شہید حمید بلوچ کا عظیم انقلابی قربانی وہ سنہرا تاج ہے جو تا ابد بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی شان بلند رکھے گی۔ شہید حمید کی لازوال قربانی نہ صرف دھرتی ماں کے ماتے کی سنگھار ہے بلکہ عالمی محنتکش تحریک کے ساتھ طبقاتی رشتے کی اٹوٹ بندھن بھی ہے۔ یہ عظیم آدرش بی ایس او کے نظریات کی مرہون منت ہیں اور انہی آدرشوں کا پالن کرنا آج کی نسل کا فرض اور شہداء کی عظیم قربانیوں کے ساتھ وفا ہے۔

افغان سور انقلاب کا دفاع, فلسطین، کردستان، ایران، یمن سمیت خطے کی انقلابی تحریکوں کی حمایت و دفاع اور دنیا بھر کے محکوموں کی جدوجہد کی وکالت اور عمانی دافر انقلابیوں کے لئے جان نچھاور کرنا بی ایس او کی عالمی سامراج دشمنی کے اعلیٰ ثبوت اور انقلابی افکار کی روشن مینار ہیں۔

بی ایس او کی یہی نظریات ہمیشہ سے مقامی و عالمی سامراجی اشرافیہ کو کٹکتے رہے ہیں جن سے خوفزدہ ردانقلابی قوتوں نے ہمیشہ سازشوں کے جال بُنے ہیں اور بی ایس او کو داخلی اور خارجی سطح پر کمزور کرنے کی مکروہ وارداتیں کی ہیں۔ مقامی سیاسی و عسکری اشرافیہ سے لیکر عالمی سامراجی زرخریدوں اور انقلاب دشمن قوتوں نے بی ایس او کو ہمیشہ نشانے پر رکھا ہے اور ہر ممکن انداز سے اس عظیم ادارے کو ختم کرنے کی کوششیں کی ہیں جس کی ایک طویل داستان موجود ہے۔ مگر, جو ادارہ قومی یاداشت بن جائے اسے مٹانے کا خیال ہی احمقانہ ہے۔ اسی لیئے ردانقلابیوں کو ہمیشہ اپنے منہ کی کھانی پڑی ہے اور اس مکروہ سازش میں ناکامی انکا مقدر رہا ہے۔

بلوچ قوم کا انقلابی ادارہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن خارجی طور پر بیشک ہزارہا حملوں کی زد میں رہی ہو مگر اس عظیم ادارے کے عظیم نظریات ہمیشہ سیسہ پلائی دیوار بن کر دشمنوں کے ارادے ریزہ ریزہ کرتی رہی ہیں مگر نشیب کے ادوار وہاں سے شروع ہوئے جب داخلی طور پر سامراج کے زر خریدوں نے بی ایس او پر وار شروع کیئے اور یہ واردات بالواسطہ بی ایس او کے نظریات پر کیئے جانے لگے جو کہ ادارے کے سب سے بااثر حفاظتی اوزار تھے۔

چین کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ ‘اگر آپ کسی دشمن کو شکست نہیں دے سکتے تو اس کے ساتھ نباہ کرکہ اسے داخلی طور کمزور کرو۔’ بی ایس او کے کیس میں یہی کیا جانے لگا۔ بی ایس او کی اپنی فارغ التحصیل قیادت نے ردانقلابی رجحانات کا زہر گھول کر اس میں ڈالنا شروع کیا اور بی ایس او سے رفتہ رفتہ نظریات حذف کرکہ اسے شخصیات پرستی اور مفادپرستی کے تابع کیا جانے لگا جس سے سائنسی افکار، دلیل و ارتقاء کے مباحثے پچھلی نشستوں پر جاتے گئے اور عہدہ پرستی، موقع پرستی اور انتہاپسندی جیسے رجحانات اولین مقام حاصل کر گئے۔

بی ایس او جوکہ ایک کیڈرساز ادارہ کے طور پر تعمیر ہو چکی تھی, اب فقط سیاسی جماعتوں کے نام پر شخصیاتی ٹولیوں کو ایندھن فراہم کرنے والی مشین بن کر رہ گئی اور خود سے قیادت فراہم کرنے سے مکمل گریزاں ہو گئی۔ اسی سبب سامراجی قوتوں کے لئے آسان ہو گیا کہ وہ اس سائنسی ادارے کو جذبات کی پیراہن میں لپٹا کر ری ایکشنری سیاست کی تابع کریں اور بچی کچی کیڈرز کا بڑی مکاری سے جسمانی اور انٹلکچول قتل عام کیا گیا۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے کیڈرز کی ایک طرف قتلِ عام اور دوسری جانب موقع پرست اور چاپلوسوں کے مکروہ کردار نے اس عظیم آدرش وادی ادارے کو بلوچ طلبہ کیلئے خوف اور حقارت کی علامت بنا کر رکھ دیا۔ اسی لئے نوعمر فرزندانِ وطن سیاست سے ہی بدظن ہو کر گوشہ نشینی کی کیفیت میں جانا شروع ہوگئے جوکہ بےحسی اور خودپسندی جیسے مہلک وبا کی شکل میں سامنے آئی۔ طلباء عدم تحفظ کی خوف میں ٹولیوں میں یکجا ہو کر بھی ذاتی آزاد خیالی اور بے راہ روی کے شکار رہے۔ ایک طرف نوآبادکار ڈی پولیٹیسائیزیشن کو بڑھاوا دیتا رہا تو دوسری طرف غیرمحسوسانہ انداز میں طلبہ خود غیر سیاسیت کی وکالت میں پیش پیش رہے۔ جس سے آخری تجزیہ میں پھر بلوچ قوم کا نقصان اور نوآبادکار کو فائدہ پہنچتا رہا جو تاہنوز جاری بھی ہے۔

بلوچ طلبہ کو بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے بدظن کرنے والوں کی مکروہ چالیں کتنی بھی طاقتور اور شاطرانہ رہی ہوں مگر جو ادارہ قومی حافظہ کا مقام پا چکی ہو وہ دھندلا ہی سہی مگر اپنی وجود کا اظہار قائم ہی رکھتی ہے۔ اسی حافظہ کو دوبارہ تر و تازہ کرکہ نئی امنگوں کے ساتھ قوم کو لوٹا دینا تاریخ کے انقلابی کرداروں کا فریضہ ہوتا ہے۔

انہی فرائض کو سرانجام دیتے ہوئے آج بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی قیادت گزشتہ ایک دہائی سے ہر طنز, ناجائز الزام, حقارت آمیز رویہ, دھونس دھمکی, دھتکار, حملے, گرفتاریاں, عقوبت خانے اور اندوہناک ازتیں, نیز ہر قسم کی توہین و مشکلات سہہ کر آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہاں, اس سفر میں دشمنوں اور مخالفوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے مگر ساتھ ہی کاروان بھی بڑھ رہا ہے جو انقلابی حوصلوں میں مزید پختگی اور عزم کو بلند تر کیئے جا رہے ہیں۔

مخالف صفوں میں موجود نوجوانوں کی توہین آمیز رویوں سے بی ایس او کے آدرش وادی ارکان کو کوئی گلہ شکوہ قطعی طور نہ ہوگی کیونکہ ان رویوں کو نادانی سمجھ کر درگزر کیا جاتا ہے۔

دہائیوں سے جاری ردانقلابی قوتوں کی بی ایس او دشمنی اور نظریات دشمنی نے نوجوانوں کی ذہنوں کو دھندلا کر دیا ہے۔ نوجوان نسل سے انکی درست یاداشت کو پوشیدہ رکھا گیا ہے۔ غیرسائنسی رجحانات کو دماغوں میں ٹھونس کر بیہودہ جسٹیفکیشن پیوست کر دی گئی ہیں اور درست سمت کی پہچان کو انجانہ بنا دیا گیا ہے۔ اسی لئے دیکھا جا سکتا ہے کہ نام نہاد پڑھے لکھے نوجوانوں کی ایک تعداد اپنی صفوں میں بنیاد پرست و قدامت پرست ٹولیوں کو سپیس تو دے دیتے ہیں مگر بی ایس او سے نفرت آمیز رویہ رکھ کر دوری اختیار کرتے ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دشمن کا پروپیگنڈہ کتنا غلیظ اور خطرناک ہے کہ اس نے بلوچ نوجوانوں کو انکی قومی میراث “بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن” سے کس قدر گمراہ اور دور کر دیا ہے تاکہ ان نوجوانوں کا انقلابی نظریات اور فکری جدوجہد سے کبھی ناطہ نہ جڑ پائے۔ لیکن تاریخ کا دھارا بنیاد پرستوں کی من منشاء سے کہاں اپنا رخ موڈتا ہے۔ اس کے برعکس ارتقاء نشیب و فراز کے امتزاج کے ساتھ آگے بڑھتا جاتا ہے اور تاریخ خود کو بلند ترین پیمانے پر دہرا دیتی ہے۔

عہد اگر تاریک ہے اور ظلم و بربریت برجاہ ہے تو پھر بی ایس او ہر کند ذہن کو کرید کر اپنی ضرورت کا احساس ضرور سامنے لائے گی۔ تاریخ ایک تاریک چکر کاٹ کر روشنی کو پکار رہی ہے۔ اور یہ پکار بی ایس او کے روشن مشعل کی ہے جس کے انقلابی افکار جذبات کے برعکس سائنس کی پریکشہ سے سرخ رو ہو کر نکلے ہیں۔ قومی محکومی کے خلاف جدوجہد کے اندر قومی بیانیہ کا دھارن کرنا بی ایس او کا سبقِ اول ہے اور محکومی سے نجات کی جنگ میں دیگر محکوم اقوام کے ساتھ فطری رشتے مضبوط کرنا اسباق کا تسلسل ہے۔ موقع پرستی اور انتہاپسندی جیسے عارضی و فوری رجحانات انقلابی سفر کو گمراہ کن ڈگر پہ لگانے کے موجب بنتے ہیں اس لئے جہدِ مسلسل کی انقلابی سفر کو صبر اور وضاحت کی پالیسی کے تحت آگے بڑھاتے رہنا ہے۔ جبکہ شہید فدا احمد بلوچ کے اتحاد، جدوجہد، آخری فتح تک کے فلسفے کی پیروی آدرش وادی فریضہ ہے۔ ماضی اور حال کے تجربات کا سائنسی تجزیہ کرکہ مستقبل کا تناظر تخلیق کرکہ درست حکمت عملی اور طریقہ کار کے ساتھ آگے بڑھتا رہنا ہوگا۔ فتح یقینی ہوگی!۔

سچے جذبوں کی قسم جیت ہماری ہوگی!۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.