محکوم اقوام کی نفسیات اور ان میں بسا خوف

تحریر: سراج بلوچ

اگر ہم محکوم اقوام کی نفسیات پر غور کریں تو دنیا میں ہمیں اس کے اوپر بڑی واضح تاریخ ملے گی۔ غلامانہ سماج میں قبضہ گیر کی پہلی وار غلام کے نفسيات پر ہوتی ہے۔ وہ اس کے دماغ و ابهرتی خیالات پر اپنا سیاسی جال بچھا کر اس کو ذہنی و تخليقی نعمت سے محروم کر دیتا ہے۔ اس کے سیاسی نظریات و تاریخ مسخ کر کے اس کے قومی زبان و ثقافت سے کھلواڑ شروع کرتا ہے۔ وہ اسے جان بوجھ کر حقیقی علم سے دور رکھ کر اپنے منفی پروپیگنڈوں کے ذریعے اسے ناکارہ بنا لیتا ہے۔ اور پھر اس طرح وہ اس ذہنی غلام سے حب الوطنی کا جذبہ ختم کر بیٹھتا ہے اور یہ سب کچھ کرنے کے لیے قبضہ گیر اپنی بھر پور ذہنی صلاحیتوں کا استعمال کر دیتا ہے۔ وہ محکوم کو جان بوجھ کر نالائق، بے قدر، بد تہذیب، کاہل، سست اور بے شعور ثابت کرتا ہے۔

مغلوب جو کہ آقا کی بہ نسبت کمزور کم علم اور بے بس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آقا کی اس ظالمانہ کردار اور بد ذہنیت کو آسانی سے تسلیم کر لیتا ہے۔

اگر یہاں ہم آقا اور غلام کی تاریخی رشتے کی بات کریں تو آقا غلام کے اوپر اپنا برتری مسلط کرنے کے لئے مختلف سیاسی حربے اور منفی پروپیگنڈے استعمال کرتا ہے۔

آقا غلام کو بڑی چالاکی سے یہ باور کرواتا ہے کہ آپ کی ترقی تحفظ ہمارے دست نگر ہے۔ اگر آپ کسی کے بہکاوے میں آکر ہمیں ٹھکراٸیں گے تو آپ بیرونی قوتوں یا خانہ جنگی کی زد میں آ کر اپنی قومی بقا، قومی تشخص گنوا بیٹھے گے۔ یہی ایک المیہ ہے اس غلامانہ سماج میں کہ وہ اس طرح کے بے ہودہ سیاسی ہتھکنڈوں کے بھینٹ چڑھ کر غلامی کی جڑوں کو مزید مضبوط کر بیٹھتا ہے۔

اس کے برعکس اگر ہم محکوم اقوام کی نفسیات کا مثبت اور عملی جائزہ لیں تو ان سب کے پیچھے ان کا خوف ہوتا ہے۔ یہی خوف ہے کہ وہ اسے ظالم کی جبر سے بچانے کے لیے آسانی سے اس کے سیاسی پروپیگنڈوں کے زد میں آ کر غلامی کا روپ اختیار کر بیٹھتا ہے۔ اور یہ غلامی اسے احساس کمتری کا شکار بنا لیتا ہے۔ پھر یہی احساس کمتری ایک قاتل کی طرح غلام سماج میں دندناتا چلتا پھرتا ہے۔ اور اسی وجہ سے یہ محکوم سماج اپنی نفسیات کے مطابق غیر ذمہ دار اور قومی غدار جنتا ہے۔ جو اس تسسل کو نسل در نسل میں برقرار رکھتے ہیں۔

یہ خوف اصل میں احساس کمتری ہے جو محکوم کو اس کے اپنی ہی نظروں میں گرا دیتا ہے۔ پھر یہی وجہ ہوتا ہے کہ یہ غلام فرزند احساس کمتری کی وجہ سے قومی ذمہ داریوں سے بہت ہی آسانی سے نظریں پھیر دیتا ہے۔

محکوم، حاکم کی دی ہوئی وہی تہمت کو حقیقت تصور کر بیٹھتا ہے کہ میں سست، کاہل، بے شعور بھلا قوم کی خاطر کیا بوجھ اٹھا سکتا ہوں۔ وہ بس اپنی ذاتی مفاد کی حد تک محدود رہتا ہے۔

تعجب کی بات تو یہ ہے کہ پھر یہی احساس کمتری کے شکار ہونے والے لوگ استعماری قوتوں کی زد میں آکر سماجی کیڑے بن جاتے ہیں جو ہر وقت مختلف شکل و صورت میں اس غلام قوم کو دیمک کی طرح کھا جاتے ہیں۔ چاہے وہ منشیات فروش ہوں ،ڈاکو ہوں یا عام سے گلی کوچے کا گبر ہو۔ آقا کی اس غفلت بھری پشت پناہی میں ہر قسم کی کھیل کھیلے جاتے ہیں جس سے یہ قوم مزید محرومی کی زد میں آتا ہے۔

اس طرح کے غیر ذمہ دار سماجی کیڑوں کے ذریعے آقا غلام کو یہ باور کرا دیتا ہے کہ تم کچھ نہیں ہو اس دنیا کے سامنے۔ آپ شکر کریں کے یہ ہم ہیں جو آپ کے لیے روزگار اور یہ سہولیات میسر کر دیتے ہیں۔ اگر ہم نہ ہونگے تو آپ اس نیوکلیر اور فائیو جی کے دور میں اپنی ان نالائیقوں اور کم علمی سے کیسے زندہ رہ پائیں گے وغیرہ وغیرہ۔

دوسری طرف اگر ہم خوف کی مثبت پہلوں کو اپنے علمی دائرے کے اندر زیر غور لے آئیں تو اصل میں یہ خوف ہمارے شعور سے پیوست ہوتا ہے مثلا غلام سماج میں اپنی قومی تشخص کو مسخ ہونے کا خوف ، قومی زبان قومی بقاء کو کھونے کا خوف ، قومی سرزمین قومی وسائل کو کھونے کا خوف اور سب سے بڑھ کر خود غلامی کا زنجیر گلے میں لٹکنے کا خوف جو اس باضمیر غلام کو ہروقت جھنجوڑ کر رکھ دیتا ہے اسے روز اکساتا ہے ، ظالم کے جبر کے خلاف ظالم کے روبرو لا کھڑا کر دیتا ہے۔

یہی سے ایک غلام قوم میں اس کی عظیم اور با کردار لیڈران کا وجود ہوتا ہے۔ اور دوسری جانب یہی خوف پھر آقا کو بھی اندر ہی اندر سے کھایا جاتا ہے۔ اسی خوف کی بنا پر آقا اٹھاٶ اور مارو والی پالیسی اختیار کر دیتا ہے۔ ان پر طرح طرح کے تشدد کرتا ہے۔ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ان میں انتشار پھیلا دیتا ہے۔ اس طرح آقا غلام کو مزید محکوم بنانے کے لیے ان پر ہر قسم کا جبر ، ظلم اختیار کر دیتا ہے جو غیر آئینی و غیر انسانی ہو۔

آقا کی یہ ظلم جبر خود عوامی بغاوت کو دعوت دیتی ہے ان کے اندر اتفاق اور ساتھ مل کر جدو جہد کرنے کی تمنا پیدا کرتی ہے۔ اور پھر یہیں سے آقا اور غلام میں کشیدگی پھیلتی ہے۔

اگر موجودہ حالات میں ہم اس کشیدگی کا جائزہ لیں تو بلوچ ، سندھی ، پشتون اور دیگر اقليتوں کا جن میں ہزارہ برادری سرفہرست ہے۔ ان کا ایک ہی پليٹ فارم سے اپنے حقوق کی بات کرنا ، آقا کو للکارنا یہی ثابت کرتا ہے کے یہ سب کچھ ماضی کا خوف ہے اور آقا کی وہ سیاسی چال چلن اور منفی پروپیگنڈے تھے جس کے ذریعے وہ غلام کے نفسيات سے ایک شیطانی کھیل کھیلا جا رہا تھا جس کی زد میں آکر یہ قومیں ماضی میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے تھے۔ ان معصوموں کو یہ تاثر دیا جاتا تھا کے شیعہ کافر ہوتے ہیں اور ان کو قتل کرنا کارِ ثواب ہوتا ہے۔

مجھے یاد ہے 2013 ,14 کے حالات میں کوئی عام سنی مسلمان ہزارہ کے علاقے میں اور کوئی سنی ہزارہ کے علاقے میں نہیں جا سکتا تھا جیسے ان کے قاتل ان کے موت کے سامان لیے ان کے انتظار میں ہوں۔ اور ایسے کیوں نا ہو اس غیرانسانی و غیر آئینی مسٸلے کو مزید ابھرنے کے لیے ہمارے ایک مخصوص طبقہ نے اپنی بھر پور ذہنی صلاحیتوں سے لیس ہوکر غلام قوم کے نفسیات پر مزید نمک پاشی کا کام کر دیا تھا جو تاحال مختلف صورتوں میں جاری ہے۔

مجھے زیادہ علم نہیں اپنے مذہب کے باریے میں لیکن اگر واقعی میرا مذہب اس طرح ہے جس میں انسانوں کو کوئی تحفظ نہیں جس میں انسان کو مذہب کی آڑ میں آکر قوم و نسل کی بنیاد پر قتل کیا جاٸے تو شاید میں اس مذہب کے ماننے سے انکاری ہو جاٶں۔ لیکن مجھے یقین ہے بلکہ میرا یقین پختہ ہے کہ میرا مذہب قطعاً اس خرافاتی چیز کی اجازت نہیں دیتا ہے کہ میں ایک جابر کی غلط پالیسیوں میں آ کر معصوموں کا قتل عام جائز قرار دوں جن کو پتا بھی نہ ہو کہ میں کیوں قتل ہو رہا ہوں۔

اب ہمیں سمجھنا ہوگا کہ اس طرح کے مسٸلوں میں جن میں محکوم کی معصومانہ نفسیات ہو ، آقا کا جبر ہو، آقا کی پیداکردہ کٹھ پتلی حکمران ہوں یا کہ وہ مخصوص گروہ جو مختلف شکل و صورت میں رہ کر ہماری نفسیات سے کھیلتا ہو ہمیں انہیں سمجھنا ہوگا ، ان پر غور کرنا ہوگا۔ ان سے خوف زدہ ہوکر اپنے ہر مسئلے ، قومی بہبود قومی زوال یا کہ قومی نسل کشی ہو اس پر ڈٹ کر کھڑا ہونا ہوگا۔ ہمیں اس خوف کو اپنے سینے میں دفن کرنا ہوگا جو ہمیں مزید ان قوتوں کے آگے جھکا رہا ہے۔ بلکہ ہمیں اپنے اندر اس خوف کو پیدا کرنا ہوگا جو ہمیں اس تباہی کا سبب بن جانے سے بیدار کرے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.