لازوال فتح کی جنگ

تحریر: فرید مینگل

بلوچ اس وقت اپنے 11 ھزار سالہ طویل تاریخ کے بدترین مقام پر آ کھڑا ہے جہاں بلوچ اپنی بقا کی مشکل ترین جدوجہد میں ہے۔ آج اگر ایک طرف بلوچ کی جھونپڑی میں فاقے ہیں تو دوسری طرف اسی جھونپڑی کا کوٸی نہ کوٸی شہزادہ کسی تاریک زندان میں اپنے باقی کے ایام گزار رہا ہے۔ آج اگر بلوچ نوجوان کسمپرسی کی حالت میں ایک مثبت سیاسی رخ کےلیے سرگردان ہیں تو وہیں بلوچ خواتین اس بدبخت سماج میں دوہری جبر کی چکی میں پس رہے ہیں۔

فرانسیسی دانشور سمن دی بواٸر اپنی شہرہ آفاق کتاب ” دی سیکنڈ سیکس“ میں کہتی ہیں کہ ” مرد عورت کے پر کاٹ کر کہتا ہے کہ عورت اڑ نہیں سکتی۔“ آج بلوچ سماج میں بلوچ خواتین کو ہو بہو یہی مسٸلہ درپیش ہے۔ ایک طرف ریاست مجموعی طورپر بلوچ کو اپنی بدترین جبر کا نشانہ بنا رہا ہے تو دوسری طرف بلوچ سماج کے اندر موجود پدرشاہی نفسیات کے حامل شخصیات و ادارے بلوچ خواتین پر جبر کے مختلف حربے استعمال کر رہے ہیں۔ ریاست بلوچ پر بشمول خواتین، زندگی کے تمام تر راستے جبری طور پر بند کر رہی ہے تو دوسری طرف بلوچ پدرشاہی سماج انہی عورتوں کو ”ننگ و ناموس“ کی آڑ لے کر اپنے گھر میں غلام بنا کر قید کر رہی ہے۔ شاید آپ کہیں کہ بلوچ سماج کو بدنام کرنے کی یہ ایک سازش ہے تو مجھے زیادہ دور جانے کی ضرورت ہی نہ ہوگی۔ نصیر آباد میں خواتین کو ننگ ناموس و بلوچ غیرت کے نام پر زندہ درگور کرنا کس کی سازش تھی؟ بلوچ خواتین کو پیداٸشی طور پر ان کی مرضی و منشا کے بغیر کسی کے نام کر دینا کس کی سازش ہے؟ کیا نامور سیاسی کارکن ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ کو ایک نامور سردار نے یہ نہیں کہا تھا کہ تم ایک عورت ہو تم گھر پر بیٹھی رہو؟ عورت کے پر کاٹنا یہی اعمال و اقوال نہیں تو پھر اور کیا ہے۔

آج پھر ایک بلوچ خاتون اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ اسلام آباد کی یخ بستہ سڑکوں پر نکل پڑی ہے اور دوہاٸی دے رہی ہے کہ اس کو اور اس کے خاندان کو طاقتور بلوچ سرداروں کے ظلم و جبر سے نجات دلا کر انصاف دلا دو۔ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ اس کی بہن خیر النسا کو ان ظالم بلوچ سرداروں نے پورے ایک سال تک یر غمال بناٸے رکھا اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ خیرالنسا اور اس کے خاندان نے اپنے زمینوں پر ان استحصالی سرداروں کے قبضے کے خلاف آواز اٹھاٸی تھی۔ اب آپ خیرالنسا کی اس ایک سالہ یرغمالی پر باالکل حیران نہ ہو جاٸیں۔ آپ کے بلوچ سماج میں یہ جو سرداری جرگہ سسٹم ہے نا۔۔۔۔۔! اس میں ہر اس خاتون کو باہوٹ کا نام دے کر یہ سردار اپنی قید میں رکھ سکتے ہیں جو سماج کے ان بوسیدہ رسم و رواج و اصولوں پر سوال اٹھاٸے یا ان کو توڑنے کی گستاخی کرے۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ آج بلوچ سماج میں جہاں جہاں سرداری جرگہ ہوتا ہے ان تمام جرگہوں کا آپ پچھلے دو سال کا ریکارڈ اٹھا لیں تو وہاں تمہیں بلوچ خواتین کے ساتھ ہونے والی جبر اور نا انصافیوں کی نت نٸی داستانیں سننے کو ملیں گی اور کم از کم پچھلے دو سال کے اندر ان جرگہوں کے ذریعے مجموعی طور پر سو سے زاٸد یرغمالی عورتیں بھی ملیں گی۔ اور عورتوں کے ساتھ جو سلوک اپنایا جاتا ہے اس کے قصے آپ کے رونگٹھے کھڑے کر دیں گے۔

اس وقت خیرالنسا اور اس کے خاندان کو ایک ایسے ہی سرداری و سرکاری جبر کا سامنا ہے۔ سردار نے ان کے زمینوں کو ھتھیانے کی کوشش، کی مزاحمت پر یرغمالی بنایا اور سرکار نے ان کو سننے اور انہیں انصاف دینے سے انکار کردیا۔ اور یہ قبضہ گیری نفسیات صرف مگسی سرداروں میں نہیں۔ یہ نوآبادیاتی قبضہ گیری نفسیات آپ کو بلوچ سماج میں موجود ہر سردار میں ملے گا جو اپنے عام عوام کی مشترکہ ملکیت پر اپنے استحصالی پنجے گاڑھ کر قبضہ کر لیتے ہیں اور پھر عوام کی ملکیت سے ہی انکار کر لیتے ہیں۔

اگر بلوچ سماج کو ان غنڈوں، قبضہ گیروں، بلوچ روایات دشمن اور عورت دشمن سرداروں سے نجات لینا ہے تو بلوچ عورت کے سوال کا ساتھ دینا ہوگا، بلوچ عورت کے بنیادی حقوق کےلیے لڑنا ہوگا۔ خیرالنسا اور اس کے خاندان کو ان بدمعاشوں سے انصاف دلانا ہوگا۔ اور یہ دیکھیے کہ جو بلوچ عورت ان سرداروں کی سرداری اور پدرشاہی احکامات اور ان تابعداروں کے حاکم سے بغاوت کرکے اپنا مقام کھوجنے کی کوشش کرتی ہے تو وہ بلوچ سیاست، بلوچ سماج کا روشن چہرہ بنتی ہے۔ اور جو ان روایات سے بغاوت نہیں کر پاتے انہیں زندہ درگور کیا جاتا ہے۔ آج ہمیں خیرالنسا اور اس کے خاندان کو زندہ درگور کیے جانے سے بچانا ہوگا، انہیں اس ازیت و جبر سے چھٹکارا دلانا ہوگا۔ تاکہ آنے والے کل میں کوٸی بھی دلال استحصالی سردار ہمارے خواتین کی تذلیل نہ کر سکے، انہیں سالوں سال یرغمال نہ بنا سکے، انہیں زندہ درگور نہ کر سکے۔ بلوچ خواتین کی آزادی ہی میں تو ہماری طاقت چھپی ہے، ان دلال سرداروں کی شکست میں ہی تو ہماری فتح ہے۔ ایسی فتح جو ناقابل شکست ہے جو لازوال ہے۔

‏سرداروں کی ہستی نے بلوچوں کو مٹایا

سرداروں کے میں سر کو سرِ دار چڑھا دوں

میر گل خان نصیر

Leave a Reply

Your email address will not be published.