“گم شدہ “

“گمشدہ”

رؤف قیصرانی

“سد پارہ” شوق کے رستے میں
کچھ دن سے جب وہ غائب ہوا
سب دیس کے کونے کونے سے
آواز سنائی دیتی ہے
سنو اس شہر کے گُنگ لوگو!
کچھ اور بھی لوگ ہیں سالوں سے
بولان کی اجڑی وادی سے
مکران کے تپتے ٹیلوں سے
سلیمان کی اونچی چوٹی سے
دن اجلے گھر کے اندر سے
معلوم سے چہرے والوں نے
بندوق کے زور اٹھائے ہیں اور
نا معلوم جگہوں پہ رکھے ہیں
اک بیٹی ہے جو روتی ہے
اک بہن کے ماتھے شکنیں ہیں
اک “بنری” شوخ جوانی میں
بن ساجن کے رنجیدہ ہے
اک ماں کے سینے کیل چبھا
اک باپ “یعقوب” مزاجی میں
دن رات اذیت ڈھوتا ہے
آو مل کر سب
ان کے واپس آنے کی
کچھ کوشش ہم بھی کر دیکھیں
کچھ لمحے ان کے پیاروں سے
دو لفظ خیر سگالی کے
دو نعرے دل کے اندر سے
اس بے حس شہر کے سینے پر
گھنگھرو کی چھنکار لیے
خاموش پڑی اس گھاٹی میں
اک شور بپا تو کر آئیں
شاید ان کمزور نحیف آوازوں سے
گم شدہ لوٹ کے گھر آئیں

Leave a Reply

Your email address will not be published.