بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی مرکزی کمیٹی کا دو روزہ اجلاس زیرِصدارت چیئرمین ظریف رند کراچی میں منعقد ہوا۔ سیکریٹری رپورٹ، ملکی و بین الاقوامی تناظر، تنظیمی امور سمیت اہم ایجنڈے زیر بحث رہے اور آئیندہ کے لائحہ عمل میں اہم فیصلہ جات کیساتھ حکمت عملی ترتیب دی گئی۔

رپورٹ: مرکزی سیکریٹری اطلاعات، بی ایس او

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی مرکزی کمیٹی کا دو روزہ اجلاس 27, 28 فروری کو چیئرمین ظریف رند کی زیرِصدارت کراچی میں منعقد ہوا۔ جس کی کاروائی سیکریٹری جنرل چنگیز بلوچ نے چلائی۔

اجلاس میں سیکریٹری رپورٹ، بین الاقوامی، ملکی و علاقائی تناظر سمیت تنظیمی امور، تنقید برائے تعمیر و مستقبل کے لائحہ عمل کے ایجنڈے موضوع بحث رہے۔ اور مرکزی آرگن کی اجراء سمیت مرکزی کمیٹی میں فرید مینگل کے اضافے اور شال میں نیشنل اسکول کے انعقاد کے علاوہ دیگر اہم فیصلہ جات لیئے گئے۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس کا آغاز شہدائے بلوچستان، شہدائے عالم انقلاب اور شہدائے سراوان ایران کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی کے ساتھ کیا گیا۔

چیئرمین ظریف رند نے اجلاس سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے آج کے سیاسی حالات کے تناظر میں کہا کہ عوامی سطح پر ایک مرتبہ پھر سیاسی ابھار پورے خطے کیلئے امید کے کرن کی مانند ہے جو ایک تابناک مستقبل کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج بلوچستان سمیت دنیا بھر میں نہ تھمنے والی تحریکیں تنظیم کے تناظر کی درستگی ثابت کرتی ہیں۔ دنیا کا ہر کونا سیاسی ہلچل سے جھنجلا گیا ہے، امریکہ، افریقہ اور ایشیاء سے لے کر یورپ تک میں محنت کشوں اور محکوموں کی جدوجہد ظلم و نابرابری پر مبنی اس نظام پر گہری دراڑیں ڈال رہی ہے، جو بلآخر اس استحصالی نظام کی تبدیلی پر ہی منتج ہوگی۔

بلوچستان میں حالیہ تحریکیں بھی عالمی تبدیلیوں سے جڑی ہوئی ہیں اور بلوچ قوم کو آج کی دنیا کے ہم پلہ لاتی ہیں، جو انقلابی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہیں۔ ان حالات میں ایک مضبوط لیڈرشپ ہی ہر خطے کو اس گہرے بحران سے نکال سکتی ہے، جو نابرابری و ناانصافی کے نظام کی بنیاد پر پنپ گیا ہے۔ ایسے میں مظلوم عوام کی تنظیم سازی و محکوم اقوام میں اتحاد حقیقی تبدیلی کیلئے بنیادی شرط ہے۔

سماجی ذندگی میں تنظیم کے اہم کردار پر بات رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مضبوط تنظیم کے بغیر جبر سے لڑنا ممکن نہیں ہو سکتا اور نہ ظلم و جبر کے نظام میں کوئی تبدیلی ممکن ہو پاتی ہے، جب تک سماج کی ہر پرت سیاسی شعور سے لبریز نہیں ہوگی تب تک ایک آذاد سماج کی تشکیل ناممکن و نامکمل رہے گی۔

انہوں نے کیڈرز پر زور ڈالتے ہوئے کہا کہ انہیں شعوری کام کو مذید تیز کرنا ہوگا۔ طلباء پر طویل عرصے کے جبر کی وجہ سے ان میں پائی جانے والی بے چینی کو سیاسی قوت میں بدلنا ہوگا۔ قوم کی حالت زار اس کی لیڈرشپ پر نربھر کرتی ہے اور کیڈر ساز اداروں کا ہونا ہی باشعور سیاسی رہنماؤں کی ضمانت دیتا ہے۔

چیئرمین نے تنظیمی اداروں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تنظیمی اداروں کے فعال رہنے سے تنظیم میں معیاری اضافہ ہمیشہ ہوتا رہتا ہے جو کہ تنظیمی استحکام اور دیرپا کام کو بنانے کیلئے نہایت ضروری ہے۔ گراؤنڈ کی سطح پر تنظیمی ڈھانچوں کے تشکیل پانے سے تنظیمی عمل کو وسعت ملے گی اور ممبران کی نظریاتی آشنائی اور عملی زانت میں بے پناہ اضافہ کرے گی۔

چیئرمین نے بات جاری رکھتے ہوئے کیڈر سازی کی مرکزی حیثیت پر تفصیلی بحث کی اور کہا کہ تاریخی طور پر مضبوط نظریاتی قیادت ہی قوموں کو بہت برے حالات سے کم سے کم نقصان کے ساتھ نکالنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ لیکن قومی سطح پر کیڈر کے بننے اور تیار ہونے کیلئے ایک سائنسی ادارے کا بنیادی کام ہوتا ہے، اور ہماری جہد اس وقت اس سائنسی ادارے کی بحالی ہے، جو عام مخلوق کا بیانیہ پیش کرنے کا گُن و جرأت رکھتی ہو۔

سیکرٹری رپورٹ میں تنظیمی کارکردگی اور موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور سیاسی تناظر میں مختلف تبدیلیوں کو زیر بحث لایا گیا۔ تنظیم کی مسلسل بڑھوتری کو تنظیمی نظریات اور درست پروگرام و حکمت عملی کی فتح قرار دیا گیا۔

سکریٹری رپورٹ میں کہا گیا کہ آج کے حالات میں بی ایس او کے بیانیے کی درستگی ہی بی ایس او کی طویل عمر کی ضمانت دے سکتا ہے، بلوچستان کے حالات کے تناظر میں بی ایس او کی اہمیت روز مذید شدت سے ہمیں اپنی اہمیت کا احساس دلاتی ہے۔ اس صورت میں ہمیں اپنے کام کے ساتھ ساتھ اپنی اہمیت کا بھی اندازہ ہونا چاہیے۔

رپورٹ میں عالمی حالات کی تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال کو بھی زیر غور رکھا اور دائیں بازو کی پرتشدد سیاست میں اضافے کو پوری دنیا میں نئی سیاسی حلقہ بندیاں تیز ہونے اور برسراقتدار طبقے کی بوکھلاہٹ پر تفصیلی بحث پیش کی گئی۔

بحث میں مزید کہا گیا کہ کووڈ 19 نے معاشی عدم استحکام مذید گہرا کر دیا ہے جو سیاسی حالات کو بھی تیزی سے تبدیل کرنے کی طرف لے جائیں گے جس میں انقلابی قوتوں کو تیار رہنے کی ضرورت لازمی ہے، تاکہ عوامی غم و غصے کو سیاسی بیانیے میں ڈھال کر انہیں تبدیلی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔

مرکزی رہنماؤں نے تناظر اور تنظیم پر بات کرتے ہوئے پوری دنیا کی سیاسی معیشت کے ساتھ بلوچستان کے حالات و واقعات کا تفصیلی جائزہ لیا اور تنظیم کی صورتحال میں کمزوریوں اور کامیابیوں کا بھی باریکی سے جائزہ لیا گیا۔

مرکزی رہنماؤں نے کہا کہ امریکی عوام میں گہری خلیج عوامی تذبذب کا آغاز ہے جو طاقت کے نئے رشتوں کو استوار کرے گا جس سے بڑی تبدیلیاں ممکن ہوپائیں گی۔ امریکہ سمیت یورپ جو نام نہاد پہلی دنیا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، کرونا وائرس کی وجہ سے اپنے طبقاتی کردار کو نہیں چھپا پائے اور صحت جیسی بنیادی سہولت بھی اکثریتی آبادی تک نہیں پہنچا پائے ہیں، جو ایک طرح سے سرمایہ دارانہ نظام کا نامیاتی بحران ہے اور اس کے ساتھ نیو لبرل پالیسیز کی ناکامی کا بھی اعلان کرتی ہے۔

انڈیا میں کسانوں کی تحریک عالمی سطح پر ایک اہم سیاسی اضافہ ہے جو مودی سرکار کی سرمایہ نواز پالیسی کے خلاف ایک مضبوط عوامی تحریک کا پہلا پڑاؤ ہے، جو اب سماج کی مختلف پرتوں تک پھیلتا جائے گا۔

بلوچستان میں حالیہ عوامی تحریکوں کو انتہائی خوش آئیند قرار دیتے ہوئے رہنماؤں نے کہا کہ عوام کی پھر سے سیاسی عمل میں شرکت بلوچستان کے حالات کو مثبت تبدیلیوں کی طرف لے جائے گا جو بلوچستان کے ہر ایک شخص کیلئے امید کا باعث ہوگا۔ سانحہ برمش سے تحرک پانے والے سماج نے بلوچستان کے حالات کو ایک نیا رخ دیا ہے جو شہید حیات اور شہید بانک کریمہ کی واقعات سے تیز ترین بدلاؤ کی جانب گامزن ہوئی ہیں۔ ان حالات میں سائنٹیفک پروگرام کے ساتھ درست حکمت عملی کا انتخاب کرنا ناگزیر امر ہے تاکہ قومی بدحالی کو روشن سمت دیا جا سکے۔ بلوچ قوم کو بھی دنیا کی دیگر محکوموں کی طرح سب بڑا بحران قیادت کی کمزوری کا بحران درپیش ہے اور اس بحران سے نمٹنے کیلئے کیڈرساز ادارے کی تشکیل سب سے پہلا قدم ہے۔ اس لیئے بی ایس او اپنے تئیں کیڈرسازی کی فکری عمل کو جاری رکھی ہوئی ہے اور اس جہد کو آگے بڑھانے کیلئے تمام سماجی پرتوں کا کردار ادا کرنا بھی لازم ہے۔

بلوچستان میں تعلیم کی زبوں حال صورتحال اور طلباء کو درپیش مسائل پر اجلاس نے پر مغز بحث کیا اور حکمرانوں کی تعلیم دشمن پالیسیوں کو بلوچ دشمن پالیسیوں کا تسلسل قرار دیا۔ تعلیمی اداروں میں فیسوں میں بے دریغ اضافہ، میڈیکل کی نشستوں پر کٹوتیاں، دیگر صوبوں میں بلوچستاں کی مخصوصں سیٹوں پر کٹوتی، سکندر یونیورسٹی خضدار کی غیر فعالی، لومز وڈھ کیمپس کی تعمیرات، ہاسٹل، میس اور ٹرانسپورٹ کے ایشوز کے ساتھ کیمپسز میں علمی ادبی و سیاسی سرگرمیوں پر پابندیوں پر گہرے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جدوجہد تیز تر کرنے کا عندیہ دیا گیا اور طلبہ یونین کی بحالی پر خصوصی طور پر تحریک چلانے کی عزم کا اظہار کیا۔

علاوہ ازیں تنظیمی امور کے ایجنڈے میں تنظیم کے اہم پہلوؤں اور شعبہ جات پر تفصیلی بحث کی گئی جس میں فائنانس، پبلیکیشنز، زونز و ممبرشپ، بامسار، سٹڈی سرکلز، نیشنل اسکول اور مرکزی کمیٹی کے اضافے سمیت تنظیم کا گہرا تنقیدی جائزہ بھی لیا گیا اور جامع حکمت عملی ترتیب دی گئی۔

اجلاس میں طے پایا کہ تنظیم کا مرکزی آرگن مارچ کے مہینے کے اندر شائع کیا جائیگا اور جون کے مہینے میں شال کے اندر دو روزہ نیشنل اسکول کا انعقاد کیا جائیگا جس میں کیڈرز کی فکری تربیت کی جائے گی۔ اور مرکزی کمیٹی نے متفقہ طور پر سنگت فرید مینگل کو اعزازی طور پر مرکزی کمیٹی کا رکن منتخب کیا اور ان پر اعتماد کرتے ہوئے اہم زمہ داریاں سونپ دی۔

دو روزہ مرکزی اجلاس کو چیئرمین نے سمیٹتے ہوئے تمام ساتھیوں کو مبارکباد پیش کی اور نئے اہداف کو عبور کرنے کیلئے اپنی تمام تر صلاحتیں بروئے کار لانے پر زور دیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.