بلوچ طلبا سیاست، دھڑے بندیاں اور ذمہ داریاں

تحریر: فرید مینگل

بلوچ ہونا تو احساس تفاخر بھی ہے اور احساس ذمہ داری و بوجھ بھی۔ پچھلے دنوں اقرا یونیورسٹی میں کسی اچھے انسان سے بلوچ سیاست پر گفتگو ہو رہی تھی، ارے بابا ان پراٸیویٹ بالاٸی طبقہ کے یونیورسٹیوں میں محکوم کے مدعے پر بات کرنے والے بھی ایک آدھ آدمی اگر آپ کو ملیں تو آپ سمجھ جاٸیں کہ آپ کو ایک بہت بڑا خزانہ ھاتھ لگ گیا ہے۔ بڑے عرصے بعد اس ساتھی سے ملاقات کے بعد میں نے منت مانی ہے کہ میں اس بار جب ھنگلاج جاٶنگا تو دیوی ماتا کے چَرن چھو کر اس ساتھی کی فکری درستگی و پختگی کی اور اپنی خوش بختی پر بطور شکرانہ ماتھا ٹیکوں گا۔

تو وہ ساتھی کہہ رہی تھیں کہ بلوچ اپنے شناخت پر اتنا حساس کیوں ہے، آخر بلوچ کے ساتھ پاکستان میں باقی طبقات بھی تو جبر سہہ رہے ہیں پِس رہے ہیں؟ میں نے کہا بی بی آپ کی بات تو درست ہے کہ بلوچ اپنے شناخت اور وطن کے مدعے پر انتہاٸی حساس ہے تبھی تو 1839 سے لے کر آج تک وہ اپنی محکومی و مسلط مجبوریوں سے برسرپیکار ہے، سر کٹا رہا ہے، جان لٹا رہا ہے۔ لیکن جہاں تک باقی طبقات کے پسنے کا سوال ہے تو بلوچ کا مدعا قدرے مختلف ہے۔ باقی طبقات کہیں سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے پِس رہے ہیں، تو کبھی اس مملکت خداداد کے اصل حاکموں کی پالیسیوں اور ان کی بے رحمانہ جبر پر مشتمل وحشت سے کٹ مر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ایک مناسب حصہ داری کے خواہاں بھی ہیں۔

مگر بلوچ اپنے سماج کے اندر تو ان معاملات سے نبرد آزما ہے ہی لیکن ساتھ ساتھ اس کو اس کے وطن، سیاسی فیصلہ سازی، زبان، قومی شناخت کا بھی خطرہ درپیش ہے۔ باقیوں کے لیے طبقاتی جبر زیادہ معنی خیز اس لیے ہے کہ انہیں ان کے وطن، قومی شناخت، تاریخ، ثقافت و زبان کے معاملے میں کوٸی خطرہ نہیں اگر کہیں کچھ خطرہ پیدا ہوتا ہے تو مملکت خداد کے حکمران انہیں ٹھنڈا کرنے اور تسلی دینے پہنچ جاتے ہیں مگر بلوچ کے ساتھ معاملہ بالکل الٹ ہے کہ وہ اپنی تاریخ پر بات کرے گا تو مارچ 1948 کے پہلے والے اپنے ریاستی تاریخ کو بھی دہراٸے گا، کراچی سے لے کر بندر عباس اور گوادر سے لے کر ڈیرہ غازی خان تک اپنے وطن کی سرحدوں کو بھی دہراٸے گا اور اپنے قومی شناخت پر بھی کوٸی سمجھوتہ کرنے کو تو تیار نہیں ہوگا۔ وہ شناخت جو کہ ایک تاریخی ارتقاٸی شناخت ہے جس میں مذھب و عقیدت کا کوٸی عمل دخل نہیں۔ یہ سب بلوچ دھراٸے گا تو حاکم جذب نہیں کرے گا حاکم جذب نہیں کرے گا تو پھر بلوچ مزید حساس ہوگا اور یہ حساسیت اس وقت تک جاری رہے گی جب تک محکوم فتح حاصل کرکے اپنے اس ساری وراثت جاگیر وطن کا اجتماعی مالک نہ بن جاٸے، کیونکہ بلوچ پاکستان کے باقی طبقات کی طرح حصہ داری کا طالب نہیں بلکہ وہ اپنے وطن اور اپنی سرزمین پر حاکمیت چاہتا ہے، وہ اپنے وطن و قوم کے فیصلے خود کرنا چاہتا ہے اپنی تقدیر اپنے ہاتھ سنوارنا چاہتا ہے۔

اور یہی معاملہ بلوچ کو اندرونی طور پر بطور قوم درپیش ہے۔ بالخصوص باشعور طلبہ اور طلبہ تنظیمیں اس معاملے میں انتہاٸی حساس ہیں۔ ان کا حساس ہونا بھی حق بجانب ہے کیونکہ بیرونی درندگی و وحشت اور قومی استحصال پر کون کمبخت ہوگا جو چپ رہے گا اور تماشا دیکھے گا۔

لیکن یہاں میرے خیال میں بلوچ طلبا مجموعی طور پر اپنے حدود و قیود اور اپنے داٸرہ کار و ذمہ داریوں کو سمجھنے میں کسی حد تک ناکام ہوٸے ہیں۔ گوکہ حاکم کا جبر اور معروضی حالت ایسے موقع بھی لاتے رہے ہیں جہاں با امر مجبوری وہ اقدامات اٹھانے پڑے ہیں جو کسی طلبا تنظیم کی بجاٸے ماس سیاسی جماعت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

بلوچ طلبا بد قسمتی سے جب بھی تنظیمی طور پر کسی اچھے اور مضبوط پوزیشن پر پہنچتے ہیں تو وہ مستحکم ہونے سے پہلے ہی مجموعی قومی معاملات کو بھی اپنے اختیار میں لینے کی خواہش رکھنے اور قومی باگ ڈور سنبھالنے میں جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یا پھر دوسرے الفاظ میں وہ ایک قومی انقلابی سیاسی جماعت کی ذمہ داریوں کو بھی اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھانا چاہتے ہیں جس سے انہیں تنظیمی طور پر نقصان ہوجاتا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ وہ جیسے ہی اپنے محدود داٸرے سے نکل جاتے ہیں تو حاکم انہیں بڑی آسانی سے شکار کر لیتا ہے۔ اس سے پہلا نقصان یہ ہوتا ہے کہ تنظیم کے اندر کیڈرز کی جو ایک کھیپ ہے اسے نقصان دے کر تنظیم کو تقسیم یا پھر کمزور کیا جاتا ہے اور دوسرا نقصان یہ ہے کہ طلبا سیاست جو کہ پہلا قدم ہوتا ہے سیاست میں داخل ہونے کا، وہیں سے ہی ہم طلبا پر ان کی تواناٸی و طاقت سے بڑھ کر کام لینے کے چکر میں انہیں عوامی میدان کے اگلے سیاسی مرحلے میں داخل ہونے سے پہلے، یا تو مایوس کر دیتے ہیں یا پھر نقصان دے جاتے ہیں۔ اس طرح بلوچ آج تک ایک باقاعدہ عوامی انقلابی سیاسی جماعت سے محروم ہے جو میدان میں رہ کر اس قوم کو ضمیر فروش قباٸلی جماعتوں کے ہیراپھیریوں اور ریاست کے باقاعدہ باپ جیسے نماٸندہ غیر فطری جماعتوں کے چنگل سے نجات عطا کر سکے۔

اب سوال یہ ہے کہ بلوچ طلبا کو مجموعی طور پر اپنے حدود و قیود کیوں سمجھنا چاہیے اور قومی انقلابی سیاسی جماعت کا کردار ادا کرنے سے کیوں اجتناب کرنا چاہیے۔۔۔۔۔۔؟

اس سے بیشتر کہ ہم اس معاملے پر گفتگو آگے بڑھاٸیں ہمیں بلوچ قوم، سماج، وطن اور اس کی مختلف پرتوں اور طبقات کو سمجھنا ہوگا۔ اوّل بات طے ہے کہ بلوچ وطن اس وقت بلوچ کے ھاتھ میں نہیں اور بلوچ قوم اس وقت ایک کالونیٸل طاقت کے ہاتھ میں ہے اور کالونیٸل طاقت ازخود ایک کالونی ہے۔ اور دوسری طرف بلوچ قوم ایک نیم قباٸلی و نیم جاگیرداری سماج پر مشتمل ہے جہاں اس کے نہ قدیم اشتراکی روایات و اقدار سلامت ہیں اور نہ ہی قدیم قباٸلی نظام سے اور اس کے سنڈیمنی اداروں سے اب تک چھٹکارا پاسکا ہے۔

بلوچ سیاسی لیڈرشپ مجموعی طورپر باقاعدہ سے اپنی قوم کو سیاسی نقاط پر جوڑنے میں ناکام ہوا ہے۔ اندرون سندھ اور پنجاب کا بلوچ اس قومی تحریک میں مکران و باقی بلوچ کی طرح حصہ دار نہیں ہے۔ ایرانی قبضہ گیر سے نبرد آزما مغربی بلوچستان کے بلوچ کو مشرقی بلوچستان کے بلوچ نے مکمل طور پر اپنانے اور اس کو اپنے ساتھ ملانے میں ناکام ہوا ہے۔ اور پھر آپ بلوچستان کے اندر بھی آجاٸیں تو نصیر آباد اور لسبیلہ کے بلوچ کو آپ نے اب تک اس حد تک تحریک کا حصہ نہیں بنایا ہے جس حد تک مکران یا پھر سراوان و جھلاوان کا بلوچ حصہ دار ہے اور آپ کے ساتھ ہے۔ اس سے بڑھ کر بلوچ کے مختلف علاقوں کے معاشی و سماجی مساٸل اندرونی طورپر بھی انتہاٸی مختلف ہیں۔ ساحل کے بلوچ کے معاشی مساٸل جھلاوان و نصیر آباد کے مساٸل سے مختلف ہیں اور بارڈر کے علاقوں سے متصل بلوچ کے معاشی مساٸل لسبیلہ و کراچی کے بلوچ کے معاشی مساٸل سے قدرے مختلف ہیں۔ تو ایسے میں بلوچ طلبا فرنٹ کا جو کہ بلوچ سماج کا ایک انتہاٸی محدود و کم مقدار پرت ہے اور ان طلبا میں بھی اکثریت وہ ہیں جو مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو اعلٰی تعلیمی اداروں تک پہنچ پاتے ہیں، قومی انقلابی پارٹی کے بطور باگ ڈور سنبھالنا احمقی ہوگی جس کی نہ ان میں طاقت ہے اور نہ ہی ایسی سمجھ بوجھ وہ اس مرحلے پر رکھتے ہیں کہ وہ پوری قوم کا نجات دہندہ بن سکیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ بلوچ طلبا فرنٹ کے اندر طلبا تنظیموں کو اس نوآبادیاتی تعلیمی نظام کے مساوی ایک قومی انقلابی درسگاہ کا کرادار ادا کرنا چاہیے جہاں طلبا کو قوم کو درپیش مساٸل سے آگاہی دی جا سکے اور انہیں انقلابی سیاسی نظریات سے لیس کیا جا سکے۔

بدبختی دیکھیے بلوچ طلبا تنظیمیں یا تو اپنا آزادانہ کردار بھلا کر محض پارلیمانی قباٸلی پارٹیوں کی سینٹرل کیبنٹ تک رساٸی حاصل کرنے کےلیے عہدوں کی دوڑ میں لگے ہیں یا پھر دوسری طرف وہ کچھ زیادہ ہی خود اعتمادی کا شکار بن کر قومی معاملات کو مکمل اپنے کندھوں پر اٹھانے کی خواہش رکھ کر پھر رہے ہیں۔ بلوچ کی تاریخ میں آج تک ایک آزاد متحرک نظریاتی سیاسی بلوچ طلبا تنظیم فقط 15 سال تک بھی باقاعدگی سے سیاسی میدان میں ٹِک نہیں پایا ہے۔ یا تو وہ کھسک کر پارلیمانی جماعت کا بغل بچہ بن گیا ہے یا پھر اپنے پہلے ہی کونسل سیشن پر دھڑوں میں بٹ گیا ہے۔ اس کی وجہ اپنے داٸرہ اختیار سے آگے بڑھنا یا پھر اپنی ذمہ داریوں کو پس پشت رکھ کر پارلیمانی جماعتوں کی دلالی کرنا ہے۔

خوش قسمتی سے 2021 بلوچ طلبا تنظیموں کے کونسل سیشنز کا سال ہے۔ تو ایسے میں نٸے آنے والی بلوچ طلبا قیادت کو اپنے ماضی پر نظر دوڑانا ہوگا اور اپنی تمام تر دھڑے بندیوں، ناکامیوں، خامیوں اور پابندیوں کا سنجیدگی سے جاٸزہ لینا چاہیے، اپنی ذمہ داریوں، غلطیوں اور کوتاہیوں کا تجزیہ کرکے بلوچ طلبا کےلیے ایک قوم دوست انقلابی پالیسی تشکیل دینی چاہیے جہاں وہ ان اداروں میں رہ کر اگلے سیاسی مرحلے کےلیے سیاسی، فکری، علمی، شعوری اور نظریاتی طورپر تیار کرلیں نا کہ یہیں بے مقصد ہاتھ پیر مار کر لاحاصل کاوشیں کریں اور اپنی تواناٸی ضاٸع کرکے بکھرتے رہیں۔ کیونکہ یہاں سے نظریاتی و فکری طورپر تیار ہو کر قومی انقلابی سیاسی جماعت کا قیام اور اس کے ذریعے باقاعدہ بلوچ قوم کے تمام اجتماعی مساٸل و فرنٹس بشمول وطن پر حق حاکمیت پر اختیار کے حصول کےلیے ایک انقلابی قومی پالیسی تشکیل دینا ہے۔ جس دن بلوچ کالوناٸیزر کی پالیسی یعنی اپنے دوسرے اداروں میں مداخلت اور ہیرو پنتی کی لعنت کے نوآبادیاتی نفسیات سے چھٹکارا پاگیا اسی وقت اس کے دشمن کی الٹی گنتی شروع ہوگی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.