افسانہ؛ اُلّو

عمران بلوچ 

جنگل میں تاریکی نے اپنے قدم جما رکھی تھیں۔ کہیں جھاڑیوں سے چررر چررر کی آواز، تو کہیں پر بڑے بڑے مچھروں کی جُھنڈ اپنے گروہوں کے ساتھ ایسے گنگنا رہی تھیں جیسے شادی کے دسترخواں پر عورتیں ایک دوسرے کے ساتھ مختلف سریلی آوازوں میں باتیں کر رہی ہوں۔ ہر سو میٹر کے فاصلے پر اُلّو کسی درخت کے شاخ پر بیٹھا ہوتا۔۔۔

لمحہ بھر کے لیئے ہر طرف خاموشی سی چا گئی۔ جنگل دو حصوں میں تقسیم تھا۔ ایک بڑا حصہ جو بھیڑیوں کے قبضے میں تھا، ایک چھوٹا سا حصہ جس پر حکمرانی تو شیر کی تھی پر بھیڑیاں اپنا حدود پار کر کے بھی وہاں شکار کے لیئے آیا کرتے تھے۔ اس پر کئی بار پنچائیت لگوائی گئی لیکن سود مند نہ رہے۔

رات آدھی ڈھل چکی تھی شیر اپنے عیاشیوں میں مست محفل میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک بھینس شیر کی محفل میں گستاخی کر بیٹھی۔ بھینس نے دعویٰ کیا کہ انکے علاقے کا کوئی ہے جو بھیڑیوں کے ساتھ ہے جسکی وجہ سے آئے روز انکی ریوڑ پر حملہ کیا جاتا ہے اور انکے بچوں کو لقمہ اجل ہونا پڑتا ہے۔
شیر کو بھینس کی گستاخی پسند نہ آئی اور بھینس کو حکم جاری کیا کہ وہ ابھی نکل جائے، یہ وقت اسکی محفل کا ہے اس وقت اسے پریشان نہ کیا جائے۔

اگلے دن کا اغاز ہوا۔ خرگوش اپنے گھر سے یہ کہہ کر چلی کے اسکے دوستوں کو ایک بہترین گاجروں کا ٹھکانا ملا ہے وہاں پر وہ خوب کھائے گی اور ہوا تو گھر بھی لیکر آجائے گی رات تک واپسی ہے۔ سورج کی کرنیں جھیل کے پانی سے ٹکراتے تو لگتا کوئی شہزادہ اپنی شمشیر سے میدان جنگ میں دشمن کے سینے پر بجلی برسا رہی ہو۔

خرگوش کے گھر ماتم بھچی کہ سرحد کے پاس میدان میں کچھ خرگوشوں پر بھیڑیئے کا حملہ ہوا ان میں سے ایک بھی خرگوش نہ بچا۔ خرگوشوں کا ریوڑ اپنا دکھ بادشاہ کے دربار میں پیش کرنے پہنچے تو پتہ چلا کہ بندروں کا جھنڈ وہاں پہلے سے بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہیں کہ وہ بادشاہ سے ملے بناء کہیں نہیں جائینگے۔ درباریوں کا بار بار اصرار تھا کہ بادشاہ سو رہا ہے۔

بندر کی صدا اپنے بادشاہ کے خواب گاہ کے قریب لگی۔ بادشاہ اپنے خواب لباس کو تنزیب کیئے ایک آنکھ کھلی ایک بند اپنے خواب گاہ کے سامنے کھڑا ہوکر بندر سے کہنے لگا تم نے میری نیند برباد کر دی اسکی سزا تم جانتے ہو بھی کہ نہیں؟
بندر نے سر جھکا کر کہا بادشاہ سلامت میں پہلے ہی سے کرب میں مبتلا ہوں۔ رات کو میں میرے خاوند میرے بچے کھانا کھا رہے تھے کہ اچانک بھیڑیوں نے حملہ کردیا مجھے لگتا ہے کہ اس میں ہمارے علاقے کا کوئی موجود ہے جو بھیڑیوں کو ہر وقت باخبر رکھتا ہے۔

بادشاہ کو اسکی بات انتہائی بری لگی کیا تم مجھے یہ کہنا چاہتے ہو کہ میرے آستین میں سانپ بھی ہیں؟ تمھاری ہمت کیسے ہوئی۔ بندر کو جیل بھیج دیا گیا۔
وقت گزرتا گیا بھیڑیوں کا خوف پورے جنگل پر سوار ہوا بھیڑیوں نے ایک بڑی محفل منعقد کی جس میں بادشاہ اور اسکے خاندان کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔

ہر طرف رنگ ہی رنگ تھا لذیذ کھانے جس میں بادشاہ کے لیئے ایک خاص پکوان تھا۔ مورنی کو ناچنے کے لیئے مختص کیا گیا تھا۔ کوئل نے اپنی آواز میں گانا شروع ہی کیا تھا کہ ایک ہرنی انکھوں میں انسوں لیئے بادشاہ کے پاس آکر اپنے پیروں پر بیٹھ گئی۔

بادشاہ سلامت میں نے خداوند سے اولاد مانگی تھی جسکو مجھے اسنے عطا کر دیا۔ کچھ دیر پہلے میں اور میرا بیٹا جھیل کنارے پانی پی رہے تھے، ہمارے بارے میں علاقے والوں کے علاوہ کسی کو کوئی خبر نہیں تھی کہ ہم کہاں ہیں۔ میں پانی پینے کے بعد ایک درخت کے نیچے کچھ دیر کے لیئے آرام کرنے بیٹھ گئی۔ میرا بیٹا پاس کی جھاڑیوں میں کھیل رہا تھا، میری آنکھ دو منٹ کے لیئے لگی کہ جھاڑیوں سے ایک آواز آئی۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو میرا بیٹا وہاں موجود نہیں تھا۔ اپنے علاقے کا کونہ کونہ چھان مارا مگر بیٹا کہیں نہیں مل رہا۔۔ میری مدد فرمائیں۔

ہرنی کو ڈرا دھمکا کر وہاں سے رفوچکر ہونے پر مجبور کیا گیا۔ بادشاہ سلامت شراب کی گلاس لی جیئے۔
ارے یہ آواز کچھ جانی پہچانی سی ہے۔ سر اٹھا کر دیکھا تو یہ اسکے اپنے محل کا منشی لومڑی تھی۔
بلکل اسکے عین بغل میں بھیڑیا کھڑا ہلکی سی مسکراہٹ دیتے کہا؛ یہ آپکا منشی ہمارا پرانا خادم ہے۔ ہمیں چھوڑ کر اپکے ہاں کمانے لگا ہے، پر وفادار نکلا اپنی پہلی روزی نہیں بھول پایا۔

بادشاہ صدمے سے باہر ہی نہیں نکلا تھا کہ دسترخوان بچھ گئی۔ خاص پکوان بادشاہ کے لیئے پیش کی گئی۔
ہم نے سنا ہے آپ کو بہت وقت ہوا ہے ہرن کا گوشت کھایا ہی نہیں آج آپکو ایک جوان سال گوشت کا مزہ چھکوا دیتے ہیں۔

بادشاہ اس سے پہلے کچھ کہتا کہ بھیڑیوں کے سردار نے بادشاہ کے کان میں مدھم آواز میں کہا آپ اپنی بادشاہی ذندگی گزار دیںن آپکے ساتھ پشتوں کو بھی یہی ذندگی دی جائے گی۔ یہ کوئی عمر نہیں لڑنے کی ویسے بھی جنگل کا قانون ہے کبھی بھی بدل سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.