کوہلو؛ انٹر گرلز کالج کئی سالوں سے التواء کا شکار ہے۔ تعلیمی ایمرجنسی کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ضلع بھر کے سکول تالہ بند ہیں۔ بی ایس او

کوہلو زون، بی ایس او (نذر بلوچ قلندرانی)

بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے اپنے ایک جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان ضلع کوہلو کے انٹر گرلز کالج جس کی سنگ بنیاد 2007 میں رکھی گئی تھی یہ منصوبہ صدراتی پیکج کے تحت صدر مملکت پرویز مشرف نے بلخصوص کوہلو کی طالبات کے تعلیمی سلسلے کو برقرار رکھنے کے لئے دیا گیا جس سے تین سال کی مدت میں مکمل ہونا تھا بدقسمتی سے 15 سال گزرنے کے باوجود انٹر گرلز کالج التواء کا شکار ہوگیا جوکہ تعلیمی ایمرجنسی کے دعووں کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔

بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا مزید کہنا ہے کہ تعلیم دشمن عناصر نے ایک سازش کے تحت کوہلو کے خواتین اور طالبات کو تعلیمی پسماندگی میں دھکیلنے کے لئے اس عظیم تعلیمی منصوبے کے خلاف سازش کیے ہیں اور یہ منصوبہ ایک دہائی کا عرصہ گزرنے کے باوجود تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔ کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والا یہ منصوبہ کوہلو کے نئی نسلوں کے تقدیر بدل سکتا تھا۔

بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے نمائندہ نے مزید کہا کہ بلوچستان ضلع کوہلو کے طالبات میٹرک کے بعد اپنے تعلیم ادھورا چھوڑنے پر مجبور ہیں جس کے باعث علاقہ مزید تاریکیوں میں ڈوب رہا ہے۔ تعلیمی ایمرجنسی کے دعویدار اپنے بلند و بانگ دعووں کو حقیقی معنوں میں عملی جامہ پہنائیں اور بلوچستان ضلع کوہلو کے انٹر گرلز کالج کی تکمیل کو یقینی بنائیں اور اس منصوبے میں ہونے والی کرپشن اور بدعنوانی کا بھی سدباب کیا جائے تاکہ بلوچستان ضلع کوہلو میں علم کا ایک نیا چراغ روشن ہوسکے اور علاقہ تعلیم اور علم کی روشنی سے منور ہوسکیں اگر ایسا نہیں ہوا تو بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن بلوچستان بھر میں طلباء و طالبات کے ہمراہ سڑکوں پر آنے پر مجبور ہونگے۔

بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ صرف یہی نہیں بلکہ بلوچستان ضلع کوہلو میں درجنوں سرکاری اسکول بند پڑے ہیں اور بہت سے اسکول اساتذہ سے محروم ہیں۔ بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ تمام تعلیمی اداروں کو فعال کیا جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.