دورِ جدید میں بھی آواران کے طالب علم تعلیم سے محروم ہیں

 عالم بلوچ قمبرانی

آواران رقبے کے لحاظ سے بلوچستان کا تیسرا بڑا ضلع ہے جوکہ لسبیلہ اور مکران کے درمیان میں واقع ہے جہاں پر تعلیمی نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسکول تو ہے لیکن بدقسمتی سے کوئی ٹیچر نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے اسکول بند پڑے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔

یہ تمام تر صورتحال آواران کے لوگوں کی خاموش ہونے کی وجہ سے ہے۔ آواران کے لوگوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے علاقے کی تعلیمی نظام کے بارے میں جدوجہد کریں اور حکمرانوں کو پریشر دیں تاکہ تعلیمی صورتحال کو بہتر کیا جا سکے۔ اگر آواران کے لوگ بات نہیں کریں گے تو ہاد رہے ان حکمرانوں کے اپنے بچے ویسے بھی شہری علاقوں میں پڑھ رہے ہیں۔ وہ تو کچھ نہیں کریں گے اور وہ نہیں چاہتے ہیں کہ غریب طالب علم تعلیم حاصل کر لیں۔ اگر وہ چاہتے تو اتنے سالوں سے آواران کے لوگ تعلیم سے محروم نہیں ہوتے۔ اگر ہم نے اب بھی بات نہیں کی تو آنے والی نسلیں بھی تعلیم سے محروم ہونگے۔

کب تک ہمارے والدین دوسرے ممالک میں جاکر مزدوری کرکے اپنے بچوں کو دوسرے بڑے شہروں میں حصول تعلیم کیلئے بھیجیں گے؟ آواران بہت بڑا ضلع ہے۔ بہت سے طالب علم ہیں جو آواران کے مین بازار میں پڑھنے نہیں جاسکتے ہیں کیوں کہ ان کا گھر دور ہونے کی وجہ سے وہ نہیں جا پاتے ہیں۔ اور پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام بھی نہیں ہے۔

ہمارے لیڈروں کو چاہئے کہ وہ اپنے حلقوں کے لوگوں کو بہتر تعلیمی نظام دیں کیوں کہ وہ اپنے لیڈروں پہ اعتماد کرکے انہیں ووٹ دیتے ہیں۔ لیڈروں کو چاہیے کہ جہاں اسکول نہیں وہاں اسکول دے دیں اور جو استاد اپنے کلاس باقائدگی سے نہیں لیتے ہیں انہیں معطل کر دیں کیونکہ طالب علموں کی زندگیوں کا سوال ہے۔

ہر انسان پڑھنا چاہتا ہے لیکن کوئی اسکول نہ ہو تو کیسے پڑھے گا۔ تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ آواران کے سارے طالب علم تو کراچی کوئٹہ اور اسلام آباد نہیں جاسکتے ہیں۔ ہر کسی کو گنجائش بھی نہیں ہے کہ اپنے بچوں کو لاہور بھیج دیں تعلیم حاصل کرنے کیلئے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے آواران کے طالب علموں کیلئے آواز بلند کریں تاکہ ہر انسان اور ہر غریب طالب علم تعلیم حاصل کرسکے۔

یہ مسئلہ صرف آواران کا نہیں ہے بلکہ بلوچستان کے بہت سارے ایسے اضلاع ہیں کہ جو تعلیم سے محروم ہیں۔ بدقسمتی سے اس جدید دور میں بھی بلوچستان کے نوجوان طالب علم تعلیم سے محروم ہیں۔

بلوچستان کے تمام سیاسی لیڈروں اور آواران کے نمائندگان سے بھی گزارش ہے کہ آواران کے تعلیمی نظام کو ٹھیک کرنے میں اپنی زمہ داریاں پورا کریں تاکہ سارے بلوچستان کے نوجوان تعلیم سے محروم نہ ہو جائیں اور ہمارے بلوچستان کے طالب علموں کو پڑھنے کیلئے کسی اور صوبے اور شہر میں جانے کی ضرورت نہ پڑے اور بلوچستان کے نوجوانوں کا مستقبل آباد رہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.