سفر نامہ؛ کوہ سلیمان، بلوچستان


تحریر: دانش ممتاز

گوادر تا کوہ سلیمان
بارکھان، کوہلو، کاھان
چاغی تا ڈیرہ غازی خان میریں بلوچستان

یونیورسٹی کے فائنل امتحانات ختم ہو چکے تھے، دوستوں نے مجھ سے رابطہ کیا کہ پیپرز تو ختم ہو چکے ہیں اور حکومت کی طرف سے چٹھیوں کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ کیوں نہ اپنے کوہ سلیمان کا چکر لگایا جائے۔ میں نے حامی بھر لی کہ چلینگے، پکنک بھی ہو جائے گی اور اپنے ان بلوچ بازؤں کو بھی دیکھ آئیں گے۔ جن کو ایک پوری گرینڈ سازش کے تحت کاٹا گیا ہے جو کہ آج بھی جغرافیائی طور پر اپنے معشیت کو الگ کر دیتا ہے۔ جس سے رہن سہن میں کافی فرق نظر آتا ہے جبکہ حالات اور تاریخ کے حوالے سے بلوچستان اور بلوچ کا اٹوٹ انگ ہے۔

کوہ سلیمان کا ہر رسم رواج مکران اور دیگر بلوچستان سے یکساں ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ کس طرح بلوچ نے دریائی اور میدانی علاقوں پر ہجرت کیا ہے اور پورے راستے میں زبان کے اندر مطابقت اور تبدیلی کی بنیادی آثار موجود ہیں۔

تو ہم چل پڑے کوہ سلیمان کی طرف، راستے میں آنے والا پتھر، انسان، وادیاں، سب کے سب اپنے محسوس ہوتے تھے۔ وہاں کے بلند و بالا پہاڑ جو آسمان سے باتیں کر رہے تھے جہاں کبھی مست نے سمو کے لئے گیت گائے تھے سب ہمیں مسکرا کے بلوچی میں ” وش آتکے” بول رہے تھے۔
وہاں کے بلوچ جو اپنے تمام بلوچی روایات کے ساتھ زندہ تھے مہمان کو دیکھتے مرجھایا ہوا چہرا کھل اٹھتا تھا۔

جب ہم پہنچے تو انہوں نے ہم سے بلوچی طرز کا حال حوال لیا اور اپنا حال دیا جوکہ چوٹ کے بند سے چوٹ کے بند تک کا پورا کارگزاری سنانا ہوتا ہے۔ پچھلے ملاقات سے میزبان کے دروازے تک کی پوری کہانی پیش کرنا ہوتا ہے۔

ہم لگ بگ آٹھ دوست تھے جو ملتان سے اپنے موٹر سائیکلوں پر نکلے تھے۔ ہم نے پورے سفر میں جو چیز بہت دیکھی کہ سب دوست یہاں کے بلوچوں کو مکران سروان اور جھلاوان کے بلوچوں کے ساتھ انتہائی غیر جانبدارانہ انداز میں موازنہ کر رہے تھے۔
ظاہر ہے موازنہ ان کے طور طریقوں کا، زرائع معاش اور اس کا تعین کردہ ثقافات، رسوم ، جغرافیہ کا تھا۔ اور ہم راستے میں انہی چیزوں پر زیادہ بحث کرتے رہے اور اچنبہ ہوتے رہے۔ اگر ہم ان نکات کو سامنے رکھیں جن نکات پر ہم نے بحث کیا تو وہ درج زیل ہیں۔

عورت

عورت جو کہ پوری دنیا میں پدرشاہانہ سماج کا ہوتے ہوئے تمام زرائع پیداوار مرد کے ہاتھ ہونے سے عورت مرد کا معاشی غلام ہے اور جہاں معاشی غلامی ہے تو خودبخود سیاسی اور ثقافتی طور پر مرد غالب آجاتا ہے۔ اگر ہم مکران اور کوہ سلیمان کے خواتین کا موازنہ کریں تو ان میں ہمیں زیادہ فرق نظر نہیں آیا دونوں جگہ عورت ایک شہ کے حیثیت اور مزید بچہ بنانے والی مشین اور ایک مقدس نگاہ سے دیکھے جانے والی مخلوق ہے جس کو ڈھانپ کر رکھا جاتا ہے۔ اب یہ رسوم و ثقافت دیکھے جائیں تو تاریخ میں کہاں کن قبائلی قانون کے تحت یہ اپنایا گیا تھا ایک مکمل الگ بحث کا آغاز ہوجاتا ہے وہ کسی اور تحریر میں پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔

آگر عورت کے پردے کا موازنہ کریں تو وہ بہت مختلف تھا۔ کوہ سلیمان میں عورت ایک قسم کا برقعہ پہنتے ہیں جوکہ مغرب میں آباد بلوچوں کی طرف دیکھنے کو نہیں ملتا ہے اور مغرب میں لباس میں کافی آزاد نظر آتا ہے۔ خواہ کہ وہ دیگر طور طریقوں سے پابند ہے۔
کوہ سلیمان میں عورت بہت ہی ضروری کام ہو تو گھر سے باہر آتے ہیں شاید بالکل ہی نہیں آتے بہرحال ہم نے انکو گھر سے باہر نہ ہونے کے برابر دیکھا۔ اگر دیکھا بھی تو مرد کے پیچھے بیٹھا موٹر سائیکل پر سوار دیکھا۔ اگر یہاں عورت کا موازنہ مکران سے کریں تو عورت تھوڑی بہت مختلف تھی لیکن گھریلو کام، مال مویشی پالنا، ہاتھ کی کشیدہ کاری اور بڑے اہم فیصلوں میں عورت کے اقدار کا کافی خیال رکھا جاتا ہے۔ ورنہ پدرشاہانہ سماج میں عورت دنیا کے ہر کونے میں کمزور نظر آتی ہے یہاں بھی عورت کا استحصال ہو رہا ہے اور وہاں بھی۔

مہمان نوازی
اگر ہم یوں کہیں تو غلط نہیں ہوگا کہ جیسے ہندی میں بولتے ہیں مہمان بگوان ہوتا ہے۔ ویسا ہی ہمیں دیکھنے کو ملا۔ یہاں اپنے ضرورت کو مار کر مہمان کی ضرورت کو پورا کیا جاتا ہے۔ مہمان کسی بھی طرح سے تکلیف اور تنگ نہ ہو۔ کوہ سلیمان میں مہمان آئے اور بکرا زبح نہ کرے تو وہ سیالی(برادری) میں کم سمجھا جائے گا۔
مہمان آئے اور بکرا ذبح نہ کیا جائے تو اسے تہمت سمجھا جاتا ہے۔

مہمان کو نہ صرف دام و کلام کیا جاتا ہے بلکہ ٹوپ اور چادر بھی دیا جاتا ہے جاتے وقت جس کا جتنا بساط اتنا ہی کیا جاتا ہے مہمانوں کے لئیے، یوں کہا جاتا ہے کہ مہمان کے لئیے گردن سے خون نہیں اس کے علاوہ سب کچھ دیا جاتا ہے۔

زبان
کوہ سلیمان کا بلوچی لہجہ انتہائی میٹھا اور دلکش تھا۔ وہ ہمیں اتنا بھا گیا کہ واپسی میں ہم سب دوست اسی لہجے میں بات کر رہے تھے۔ اور آج تک بھی اسی لہجے میں آپس میں بات کرتے ہیں۔ وہاں ہم نے مکرانی بلوچی اور کوہ سلیمانی بلوچی کے شعر و اشعار ایک دوسرے کو سنائے۔

کہا جاتا ہے کہ مغرب میں قحط و تنگدستی کی وجہ سے بلوچ لشکر سمیت پانی کی تلاش میں مشرق کی طرف ہجرت کرگئے جہاں جہاں پڑاؤ ہوتا رہا، وہاں دہائیوں مکین رہے اور جہاں سے بھی گزرے وہاں وہاں ایک نسل آج بھی موجود ہے اور وہاں ایک الگ زبان وہاں کے جغرافیائی اور ثقافتی حیثیت سے ملتا ہے۔

کوہ سلیمان کی زبان پر مختلف دانشوروں نے ریسرچ اور مفروضہ بیان کئیے ہیں کہ کس طرح سے زبان کے اندر مخلتف مقامات پر جدّت آئی ہے اور کس طرح سے مختلف اثار ہمیں مختلف زبانوں میں ملتے ہیں۔ اس کا اندازہ بلوچی پروفیسر کے ریسرچ تھیسس میں ملتا ہے کہ دس کلومیٹر بعد زبان کے اندر جدت ڈیرہ بگٹی کے قریب سندھی لہجے سے جا کر ملتا ہے جبکہ کوہ سلیمان کے دامن میں سرائیکی سے جا کر ملتا ہے۔

زمین اور وسائل

یہ وہ خاص بات تھی جس میں ہم نے کوئی خاص فرق نہیں دیکھا یہاں بھی ہم اس زمین کے لیے اجنبی اور غیر تھے۔ جس پہ حق و حاکمیت کسی اور کا تھا۔ اگر تھا تو صرف نام اور ترقی کے وعدے تھے۔ یہاں بھی وہی استحصال ہورہا تھا جو بلوچستان کے بلوچ سالوں سے برداشت کر رہے ہیں۔

یہاں بھی وہی نام نہاد سردار اسی طریقے سے لوٹ مار میں معاونت کر رہے تھے اور بچا کچا ہڈی چپا رہے تھے۔ کہیں گیس نکل رہا تھا ، کہیں کوئلہ ، تو کہیں یورینیم کے پلانٹ لگے تھے۔ ترقی کے نام پر سڑکیں بن رہے تھے۔ ایک فرق تھا کہ وہ اس کو اپنا ترقی مان رہے تھے جو یہاں نہیں مانتے۔ جبکہ اس ترقی سے وسائل نکالے جانے والے زرائع سے کوہ سلیمان کے باسیوں کو صرف کینسر ہی مل رہا تھا۔ ہر گھر میں چوتھا شخص کینسر کا مریض ہے جبکہ علاقہ میں کوئی ڈسپینسری تک موجود نہیں۔

ہتھیاروں میں پہلے نمبر والی ملک کو یورینیم فراہم کرنے والا خطہ باقی بلوچوں کی طرح پنجاب میں شامل ہونے کے باوجود انتہائی کسمپرسی کی حالت میں جی رہے ہیں۔ یونیورسٹی کجا، پنجاب کے دیگر یونیورسٹیز میں ملنے والی خیرات بھی بند ہوگیا ہے۔ قبائلی اضلاع کے مخصوص کوٹے بھی ختم کر دیئے گئے ہیں۔ اس طرح سے وہاں بھی بلوچ بزگ، لنگڑ ، نت شپادی میں جی رہا ہے۔

صحت کی صورتحال
صحت کی صورتحال میں بھی ہم نے کوہ سلیمان اور بلوچستان میں کوی فرق نہیں پایا۔ جیسے بلوچستان میں آج تک کبھی کینسر کا ایک ہسپتال نہیں بنایا گیا بالکل اسی طرح ڈیرہ غازی خان اور راجن پور جیسے علاقے جہاں کینسر کی شرح سب سے زیادہ ہے وہاں بھی ایک بھی کینسر ہسپتال نہیں ہیں۔

تعلیمی صورتحال
کوہ سلیمان بھی اس طرح تعلیمی صورتحال کا شکار ہے جیسے بلوچستان کا ہر علاقہ۔ یہاں سکول کے عمارت تو کھڑے تھے مگر اساتذہ موجود نہیں تھے۔
ہم نے یہاں کے بلوچ کو بھی تعلیمی طور پر استحصال کا شکار پایا اور تعلیم جیسے جدید ہتھیار سے محروم پایا۔ اور وہاں سے اگر کچھ پڑھ کر نکل آئے تو تخت لاہور انہیں روزگار عطا کرنے سے قاصر ہے اور وہاں کے باسی دوبارہ شال کی طرف ہی روزگار کے لیئے رجوع کرتے ہیں جبکہ غربت کی کیفیت یہ ہے کہ جرم انتہائی بڑھ چکا ہے ڈکیت اور ڈکیتیوں میں خطہ کافی مشہور ہے۔ چھوٹو گینگ وہی راجن پور میں ہی ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے جن کو کچھلنے کے لیئے پاک فوج کو طلب کیا گیا۔ شرح خواندگی کم ہونے کی وجہ سے بچوں کو کم عمری میں ہی ملتان یا میانوالی کی کسی ریسٹورنٹ یا کسی مل میں کام کرنے بیجھا جاتا ہے۔

اس کے طرح جیسے ڈیرہ بگٹی، بارکھان، کوہلو کے لوگ اچھے علاج یا آپریشن وغیرہ کے لیے ملتان نشتر کا رخ کرتے ہیں بالکل اسی طرح ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے لوگوں کو ملتان نشتر جانا پڑتا ہے۔

بچے مال نیوٹریشن کا شکار اور قد اور ہم عمر سے کافی جسمانی طور پر کمزور نظر آتے ہیں جبکہ عورتوں میں زچگی کے دوران اموات پورے پاکستان سے زیادہ ہے۔

گیس
جیسے بلوچستان آج دن تک بھی اپنی ہی گیس سے محروم ہے بالکل اسی طرح کوہ سلیمان کا ہر گھر اپنی ہی گیس سے محروم ہے جو وہاں سے نکل کر فیصل آباد کے کارخانوں تک جاتی ہے ۔ وہاں کے باسیوں کو صرف پائپ لائن کا دیدار ہی نصیب ہوتا ہے اگر پائپ لائن کو کہیں سے نقصان پہنچے تو پاک فوج کے جوان وہاں کے باسیوں کو ہی زدکوب کرکے لاپتہ کرتے ہیں وہاں کے گاؤں جلائے جاتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.