بلوچ قوم میں انتشار

تحریر: نذر بلوچ قلندرانی

آپ کو یاد ہوگا چہارم یا پانچویں کلاس میں ایک سبق ہوا کرتا تھا جس میں ایک بوڑھے شخص کے چار بیٹے تھے جب وہ اس دنیا سے رخصت ہونے والا تھا تو اس نے اپنے بیٹوں سے چار لکڑیاں لانے کو کہا اور ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ایک لکڑی دے کر انہیں توڑنے کا کہا تو ہر کسی نے باآسانی سے لکڑیاں توڑ دی جب چاروں لکڑیوں کو ملا کر توڑنے کو کہا تو ہر ایک نے الگ الگ اپنی طاقت آزما لی لیکن وہ لکڑیوں کو توڑ نہیں سکے۔ تو بوڑھے باپ نے بیٹوں کو نصیحت کی کہ ساتھ رہو گے تو کوئی بھی طاقت تمہیں توڑ نہیں سکتا۔ ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد اس سبق کا مقصد سمجھ آیا۔۔ جب ہم مسلمان تھے، بلوچ تھے یا پھر مری تھے تو دریا بھی ہمارے حکم مانتا تھا چرند، پرند، درند اور حیوانات سب ہمارے حکم کی فرمانبرداری کیا کرتے تھے۔ اس بات کو یاد رکھا جائے کہ اس وقت بھی یہاں مادہ پرست طاقتیں موجود تھیں مگر اللہ تعالیٰ نے سب سے زیادہ عزت ہماری گود میں پھینک رکھی تھی لیکن آج ہم ہر جگہ زلیل وخوار ہو رہے ہیں۔ ہماری ہی دھرتی اب ہمارا نہیں رہا، ہمارے وسائل ہمارے نہیں رہے، بولنے اور لکھنے کا حق ہمارا نہیں رہا۔

کہتے ہیں کہ اتفاق میں برکت ہے لیکن آج ہمارے مخالفین اپنے دیرینہ مقصد میں پورا اتر گئے اور بلوچ قوم کو بری طرح انتشار کا شکار کرکے انہیں صرف اپنے مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ تاسف کی بات ہے کہ ہم نے اپنا قبلہ اول اور اپنے شہداء کو بھول کر انہیں خدا گھڑ کر لیا ہے یہ جانتے ہوئے کہ یہ مصنوعی خدا ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہیں اور نہ ہی ہمیں کچھ دے سکتے ہیں اس کے باوجود بھی ہم دھڑا دھڑ اس کی پوجا میں مست ہیں اور اپنے مصنوعی خدا کی خوشنودی کی خاطر اپنے بھائی کا گلا کاٹنے سے بالکل دریغ نہیں کرتے۔ ہم ایک غلام ہونے کے باوجود اپنے بھائی کو بھی اپنا غلام بنا رکھا ہے۔

اگر ہم حقیقت کو دیکھیں تو ہماری سب سے بڑی خرابی جس کو ہم اپنی خوبی تصور کرتے ہیں وہ یہ کہ ایک قوم بن کر جدوجہد کرنے کے بجائے ہم مختلف فلاحی تنظیم بنا کر اپنے قوم کو عدل و انصاف اور ان کے حق دلوانے کی باتیں کرتے ہیں۔ حالانکہ کہ معاملہ اس کے برعکس ہے جو ہر عام و خاص کے سمجھ سے بالاتر ہے۔ دراصل وہ اس موقع کے تلاش میں ہوتے ہیں کہ کس طرح کسی کے حق پر ڈاکہ ڈالا جائے؟ کسی کے حقوق کو کس طرح چھینا جائے؟ اور کس طرح اپنی حکومت میں اور شان و شوکت میں اضافہ کیا جائے؟ اور وہ ان کو زر خرید غلام سے بھی کم تر تصور کرتا ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ ان کو اگر پیٹ بھر کر کھانا مل گیا تو ہمارے لئے کون آلہ کار بنے گا اس لئے تو آج بلوچستان ضلع کوہلو میں ہر دو ٹھکا کسی تنظیم کا سربراہ ہے۔

اگر ہم ماضی کی مطالعہ کریں تو نواب خیربخش مری کا دور سنہرا دور کہا جاتا ہے مگر آج ہم نے وہ ہستی گنوا دی ہے۔ آج ہم پر ایسے میر، وڈیرے سردار اور حکمران مسلط کر رکھے ہیں کہ انہیں ہمارے متعلق خبر ہی نہیں ہے۔ وہ اپنی قوت، مادی حیثیت اور ظاہر رکھ دکھاؤ کو بلند کرنے میں مگن ہیں۔

آج دریائے نیل کے کنارے کتے کا بھوک سے مر جانے پر باز پرس کا احساس بھی مر چکا ہے، ہمارے ذہن ہمارے جرائم کے عقوبت خانے بن چکے ہیں، آج بلوچ، اور بلوچ قوم پرست رہنما دنیا کے کسی بھی کھونے میں محفوظ نہیں ہیں۔ آج بلوچ قوم کے گھر اور رسم و رواج کو پائمال کیا جا رہا ہے اور بلوچ ماں بیٹیاں سرِعام سڑکوں پر خوار ہو رہی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ بلوچ قوم میں انتشار ہے اس لئے ہر کوئی ہمیں کچل رہا ہے۔

یہ سچ ہے کہ ایک خگنو کے دمکنے سے تیرگی کی دبیز تہہ بھی نہیں اچٹ سکتی اور یہ بھی درست ہے کہ آج بلوچستان میں اپنے حق کے لیے جدوجہد کرنے والے رہنماوں، نوجوانوں کے مسخ شدہ لاشوں اور انکے پیچھے بے آبرو ہوتی ہوئی بلوچ بیٹیوں کی سسکیوں کی آواز کی ہلکی سی گونج سے سب باخبر نہیں ہوسکتے، رات کی گہری تاریکی ایک دیئے کی لو سے نہیں چھٹ سکتی، لیکن سیاہ شب کا غبار بن کر جینے، جھوٹ کو سچ کا آنچل اوڑھانے، تاریکی کو روز و رشن سمجھنے اور ذاتی مفادات کی خاطر بلوچ قوم کی حق دبانے ان پر طرح طرح کے ظلم جبر اور بربریت سے بلوچ اور انکی سرزمین کے دشمن اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکیں گے

Leave a Reply

Your email address will not be published.