کالی شال

افسانہ نگار: شاد بلوچ

جیسے ہی چائے کے کپ سے نظریں تھوڑی دور پیلے رنگ کی بلوچی قمیض پر پڑیں تو گویا نظریں وہیں کی وہیں گڑ گئیں۔ یہ ہماری چوتھی ملاقات تھی۔ جامعہ کے اونچی درختوں کے سائے تلے رنگ برنگی کرسیوں پر چائے کی چسکیاں چل رہیں تھیں، ساتھ ہی ٹیبل پر مصالحے دار چاٹ اور چکن رول رکھے ہوئے تھے۔ میرے کلاس فیلو پتہ نہیں بین الاقوامی تعلقات کے کس موضوع پر بحث تمحیص میں مگن تھے۔ میں پیلی قمیض والی کو پیلی دیوار اور درختوں کی اوٹ میں چھپتے دیکھ رہا تھا کہ خالد کی آواز آئی “یاربلوچ خان! یہ بتاؤ کہ گلوبلائزیشن سے کسی کالونیل ریجن یا ریاست پر کس طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ وہ خود کسی سامراج کے پیروں تلے دبے ہیں؟” خالد کو کیا پتہ کہ میں کہاں ہوں؟ کونسی کالونی کا شکار ہو چکا ہوں؟ کس صحرا میں خود کو پیلے رنگ کی قمیض میں ملبوس لڑکی کے تصور میں لاکر آوارگی کر رہاہوں، اسکی ستواں ناک، موٹی موٹی آنکھیں اور گلابی رخساروں تک کالے شال کو گھور رہاہوں۔ میرے لیئے کوئی کالونیل ریاست کیا معنی رکھتی ہے جبکہ میں خود کسی کے عشق کی کالونی کا شکار ہوچکا ہوں۔

مارچ کے آخری ایام تھے۔ صبح آٹھ بجے موبائل پر گھنٹی بجی تو گھنٹی بند کرکے تکیے پر سر زور سے دبانے لگا کہ آخر اِس گھنٹی کی آواز نے مجھے خواب سے کیوں جگایا جس میں زینب اور میں جامعہ کے کنٹین پر بیٹھے تھے اور میں چائے کی چسکیوں کے ذریعے ماحول کی خاموشی توڑنے میں مصروف عمل تھا، جامعہ بلکل سنسان تھی۔ کنٹین کے خدمت گار کے علاوہ کوئی شے تک نظر نہیں آرہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جامعہ آج ہم دونوں کی خاطر چھٹی منا رہی ہے اور ہم ان اونچے گھنے درختوں کے تلے ایک آزاد فضا میں خاموشی سے سب کچھ واضح کر رہے ہیں۔ زندگی آزاد ہوگئی کچھ لمحے گزرے تھے کہ موبائل کی گھنٹی نے اس بڑے بوٹ اور کلاشن کوف والے بندے کی یاد دلا دی جو ہاسٹل گیٹ پر کھڑے ہوکر عجیب طرح سے ہر آنے جانے والے کو گھورتا ہے۔

کمرے کا حال اس کوٹھڑی جیسا تھا جہاں رات جنگ عظیم ہوئی تھی، سگریٹ کے ڈبے، ماچس کی جلی ہوئی تیلیاں, کالی بالٹی جو میرے اچھے ساتھیوں میں سے ایک تھی جس میں روز میں پانی گرم کرکے ہاسٹل کے کسی شکستہ دروازے والے غسل خانے میں لے جاکر لمحہ بھر کے لیئے دوستی جوڑ دیتا۔ تولیہ کمرے میں اُس رسی پر ٹنگا ہوا تھا جس پر گیلے کپڑے سوکھنے کے لیے ٹانگتے تھے۔ تولیہ اور بالٹی لیکر جب میں غسل خانے کے لان میں پہنچا تو طلبہ کی بھیڑ دیکھ کر میں گھبرا سا گیا کہ اتنی بھیڑ…!! آخر ہوا کیا ہے؟ کسی نے دھکا دے کر کہا “او بھٸی اب میری باری ہے۔ میں سوا سات بجے سے انتظار میں ہوں”۔ جیسے تیسے میں واش بیسن پر پہنچا تو صرف اتنا ہی وقت ملا کہ منہ پر پانی ڈال کر بالوں کو صرف گیلا کرسکا۔

بلاک سے باہر نکل کر یونیورسٹی کیمپس تک دیواروں پر مختلف نعرے پڑھتا جو تقریباً اب مجھے حفظ بھی ہوچکے تھے۔ لیکن آج یہ نعرے کسی کام کے نہیں تھے اور نہ ہی ہاسٹل گیٹ پر ایستادہ کلاشن کوف والے کا ڈر ستا رہا تھا. میرے ذہن میں زندگی کی آزادی، کنٹین پر چائے کی لذت اور زینب کی کالی شال میرے گمان میں تھی جس پر سرخ، سبز اور نیلے دھاگے کی لاٸنیں زندگی کی حسین رنگینیوں کا اظہار کررہی تھیں۔ اس کالی شال کے پیچھے زینب کی لمبی ناک، اسکے گندمی گال اور ایک حسین مسکراہٹ چپھی ہوئی تھی جو کہ میں نے کبھی دیکھا ہی نہیں۔ میں زینب کی قمیض پر بلوچی کشیدہ کاری سے بنے چَکّن میں گم میں تھا جو کسی قوم کی صفِ اول کی یکجائیت کو بیان کر رہے تھے اور قمیض پر مُوثُم (ایک قسم کی بلوچی کاری گری) ان جنگجوؤں کی طرح تھے جو نوآبادیاتی نظام کے خلاف مختلف گروپ کی صورت میں جنگ لڑرہے تھے۔

کلاس ختم ہونے کے بعد جب میں اپنے دستوں کے ہمراہ لان سے گزر رہا تھا تو میری نظر زینب پر پڑی جو اپنی سہیلیوں کے ساتھ گفتگو میں مگن نظر آرہی تھی۔ آج اس نے سبز رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے اور کالی شال اوڑھے ہوئی تھی۔ وہ بار بار کالی شال کو سنوارتی پھر گفتگو میں حصہ لیکر آگے بڑھتی۔ جیسے ہی وہ میرے قریب سے گزری میرے دل نے چاہا کہ اسے پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لوں اور کہوں چلو نہ کنٹین پر چائے پیتے ہیں۔ یہ ممکنات صرف مجھے ہی پتہ تھے کسی اور دوسرے کی سمجھ میں نہیں آسکتے تھے۔

دن مہینوں میں گزر گئے اور ایک سال کا عرصہ بیت گیا۔ ہمارے ماسٹرز کے آخری سال کا آغاز ہوچکا تھا۔ جامعہ پہنچے مجھے تین دن ہوگئے تھے۔ جامعہ میں تین دنوں سے کلاشن کوف والوں کی تعداد دگنی ہوچکی تھی۔ طلبہ سیاست مکمل طور پر خاموشی کی ڈگر پر گامزن تھی غیر ملکی اور غیر زبان والوں کی تعداد بھی بڑھ کر تین گنا ہو چکی تھی۔ ہماری زبان سے لے کر ہماری روز مرہ زندگی کے معاملات تک میں تبدیلی کا سلسہ شروع ہوچکا تھا۔ شہر میں لوگوں کی توجہ باہر سے آئے ہوئے مہاجرین کی زبان پر مرکوز تھی، شہر میں تجارتی مراکز سے لیکر جامعہ کے عملہ تک تمام کے تمام اجنبی زبان کے تھے۔ علاقے میں اساتذہ، طلبہ سمیت سیاسی ارکان نظروں سے بالکل اوجھل تھے یا پھر وہ نامعلوم افراد کی گولیوں کا شکار ہوکر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے منوں مٹی تلے دبے ہوٸے تھے۔

صبح سویرے چیختے چلاتے اور دوڑتے طلبہ کے پیروں کی آواز سنائی دی تو جلدی جلدی ٹوٹی ہوئی چائنہ چپل پہن کر بلاک سے باہر آیا تمام طلبہ کسی چیز کو دیکھ رہے تھے۔ سب کے رنگ سرخ اور چہرے لٹکے ہوئےنظر آرہے تھے, کوئی ٹریک سوٹ میں تھا تو کوئی ننگے پاؤں آیا تھا۔ آنکھوں میں نفرت لیے غم کا اظہار کر رہے تھے۔ جیسے ہی میں بھیڑ سے ہوکر پہنچا تو دیکھا شعیب کا لاشہ پڑا ہوا تھا۔ چہرے پر سگریٹ کے داغ، انگلیوں کے ناخن غائب، ہاتھوں پر رسی کے نشانات، پیشانی پر کسی کیل یا لوہے کے اوزار سے چھید اور سینے پر تین گولیوں کی علامات ظاہر تھیں۔ وہ بلکل ایک مسخ شدہ لاش تھی۔

بقول ایک سٹوڈنٹ کے دو رات پہلے وہ اس غرض سے کمرے سے نکلا تھا کہ ابو کے بھیجے ہوئے پیسے وصول کرکے لوٹ آتا ہوں، لاش کو بوری میں ڈال کر جامعہ کے پیچھے بہنے والے بڑے سے گندے نالے میں پھینک دیا گیا تھا۔ شعیب کے روم میٹ صبح سگریٹ لینے گئے تو امجد کی نظر اس بوری پر پڑی جس سے خون کے تازہ قطرے ٹپک رہے تھے۔ انہوں نے بوری باہر نکالی تو شعیب کا ڈراؤنا چہرہ دیکھتے ہی نے ان کے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔۔۔

طلبہ میں سے کوئی دوڑتا ہوا آیا اسکے ہاتھ میں ایک کالا کپڑا تھا جب اس نے کپڑا کھولا تو وہی کالی شال جس پر تین رنگوں کی دھاگے سے بنی لکیریں تھیں جو زینب ہر روز پہن کر جامعہ آتی تھی۔ شال کو شعیب کے جسم پر لپیٹ کر اسے بلاک کے سامنے سے اسکے کمرے تک پہنچایا گیا جہاں وہ سالوں سے وہ سارے خواب دیکھتا رہا جو اس نے پورے کرنے تھے۔ کمرے کی دیواروں پر شعیب کی شاعری کے پوسٹرز، کچھ تصاویر جو شعیب نے خود چسپاں کی تھیں ٹیبل پر مختلف قسم کی کتب، کچھ رسالے اور ایک نامکمل شاعری کے کچھ مصرعے لکھے ہوئے تھے۔

کچھ لڑکے آئے انکے چہروں پر غم و غصہ تھا۔ کہنے لگے جامعہ کے سامنے والے روڈ کو بلاک کرکے مظاہرہ شروع ہوچکا ہے۔ جب میں بلاک سے باہر نکلا تو بارش کی بوندا باندی جاری تھی آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے اور درختوں کے پتے ہل کر غم و اندوہ کی بھرپور عکاسی کرتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ میرا بلاک شعیب کے بلاک کے پیچھے ایک کھنڈرنما بنگلہ کی صورت میں موحود تھا۔
میں جلدی جلدی قدم اٹھاتے ہوئے روانہ ہوا تو کسی نے آواز دی “جلدی کپڑے بدل کر جامعہ کے سامنے پہنچ جاؤ”۔ میں پیچھے دیکھ کر مسکرایا اور واپس اپنے کمرے کی طرف لوٹا۔

کھڑکی سے باہر درختوں کے جھرمٹ اور کھڑکی کے شیشوں پر بارش کی بوندوں کی جنگ چل رہی تھی۔ میرے ذہن میں زینب کی کالی شال، شعیب کے چہرے کی رنگت اور اس کے جبین پر کیل کا سوراخ گردش کر رہے تھے۔

لوگوں کی بھیڑ تھی، بارش کی بوندیں اب بھی متواتر گر رہی تھیں۔ سڑک پر طلبہ، اساتذہ اور عوام کا بڑا رش ایک سرکل نما یکجائیت کو بیان کر رہا تھا جہاں تک نظر جاتی گاڑیاں ہی گاڑیاں تھیں۔ سرد موسم کی وجہ سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ ویسے تو ایسے موسم میں شہر کے لوگوں کے چہرے بلکل ملائم اور رونق سے چمکدار نظر آتے ہیں لیکن آج تو انکے چہروں پر ظلم، جبر اور اذیت کی شکنیں انکی حالتِ زار بیان کر رہی تھیں۔ سرکل کے دونوں اطراف پر روڈ بیریٸرز پڑے تھے جو کہ جامعہ کے سامنے بلا جواز رکھے ہوٸے ہوتے ہیں۔ مگر آج انہیں کارگر جان کر ان سے کوئی کام لیا جا رہا تھا۔

ایک گھنٹے سے شعیب کی میت جامعہ کے سامنے رکھی ہوئی تھی۔ میں طلبہ کے نعروں کا ساتھ دے دے کر درمیان میں کسی خالی جگہ جب بیٹھ گیا تو میری نظریں نیچی تھیں اور میں روڈ کنارے پڑی چھوٹی کنکریوں سے کھیل رہا تھا۔ اچانک نعرے لگانے والا بدل گیا اور اب آواز کسی لڑکی کی تھی۔ نسوانی آواز سن کے آنکھ اٹھا کر دیکھا تو کالی شال اوڑھے زینب ایک ہاتھ میں مائک پکڑے بڑے زور سے چلا کر دوسرا ہاتھ فضا میں بلند کرکے بھرپور نعرہ زنی کر رہی تھی۔ اسکے الفاظ کی ادئیگی اور لہجہ بلکل وحشت انگیز تھا، اسکی جسمانی حرکت ایک عجیب قسم کا دہشت پیدا کرتی جب وہ بولتی تو آنکھیں اور رخسار کھینچ لیتی۔ غصے کی شدت اتنی تھی کہ اسکے پاؤں میں لرزش تھی۔

زینب نے مقررین کو مدعو کیا جن میں اساتذہ، طلبہ اور سیاسی شخصیات شامل تھے۔ مقررین کی تقاریر سے پتہ چلا کہ شعیب تنظیم میں ایک اچھا مقام رکھتا ہے نہ صرف وہ ایک شاعر بلکہ ایک بہترین لیڈر کی جملہ خصوصیات کا مالک تھا وہ جامعہ کی تقدیر بدلنا چاہتا تھا بقول زینب بظاہر وہ جتنا سرگرم اور پرجوش نظر آتا تھا اس سے کہیں زیادہ اس نظام سے بیزار بھی تھا۔ جتنا متحرک وہ طلبہ سیاست میں تھا اتنا ہی اپنی کلاس میں بھی تھا۔ شعیب کی پہلی لڑائی ہاسٹل گیٹ پر اس وقت ہوئی جب میں اپنے آنکھیں نیچھے کرکے خود کو کلاشن کوف والے سے بچا رہا تھا۔ جب شعیب وائس چانسلر کے پاس اپنے عملہ سمیت گیا تو انہیں اس جواز کا کہہ کر نکال دیا گیا کہ جامعہ کو سیکورٹی خدشات کے بنا پر تحویل میں لیا گیا ہے۔ قمبر نے اپنے تقریر میں اس بات کا ذکر کیا کہ شعیب کبھی پیچھے ہٹنے والا نہیں تھا وہ وائس چانسلر کے خلاف ایک تحریک کا آغاز کرنے والا تھا کہ کئی طرح سے اُسے ٹارچر کیا جاتا رہا یہاں تک کہ اسکے کمرے پر چھاپے مارے گئے۔

رات کافی ہو چکی تھی۔ بارش کی بوندا باندی بھی رک چکی تھی ایک سگریٹ ختم ہوا تو میں نے دوسرا جلا دیا۔ کھڑکی سے باہر تیز ہوا کے باعث درختوں کی ترتراہٹ جیسی آواز ایک خوف کا منظر عیاں کر رہی تھی جس طرح زینب کی لرزتی آواز تمام احتجاجیوں کو نعروں کا جواب دینے پر مجبور کررہی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ زینب نے آج مجھے مدعو کرکے یہ کیوں نہیں کہا کہ “اب میں دعوت خطاب بلوچ خان کو دونگی کہ وہ آئے اور اپنی بھڑاس نکال کر اپنے جذبات کو بیان کرے” آخر کیوں مجھے بولنے کا حق نہیں دیا گیا؟ اگر بلاتی بھی تو میں کس نظام کے خلاف بات کرتا میں تو ہاسٹل گیٹ پر کھڑے شخص سے ڈرتا ہوں، میں نے ہاسٹل وارڈن سے یہ تک نہیں پوچھا کہ گرم پانی میسر کیوں نہیں، غسل خانوں کے دروازے کیوں ٹوٹے ہوٸے ہیں؟ میں تو طلبہ سیاست سے ڈرتا ہوں حتٰی کہ آج احتجاج میں شریک ہونے سے پہلے ہزار بار سوچتا رہا کہ جاؤں یا نہیں۔ اگر بلاتی بھی تو میں کن جذبات کا ذکر کرتا وہ جزبات جو زینب کو دیکھ کر میرے دل میں ابھرتے ہیں یا اس کالی شال کی تعریف میں بولتا جو آج تک سمجھنے سے قاصر رہا یا ان ہراساں کرنے والے بندوں کے خلاف لب کھولتا جو زینب جیسی ہزاروں لڑکیوں کو چہرہ چھپانے پر مجبور کرتے ہیں جبکہ مجھے آج تک یہ ساری چیزیں محسوس تک نہیں ہوئیں۔

آٹھویں ملاقات زینب سے اس وقت ہوئی جب میں اور خالد سنٹرل لائبریری میں داخل ہو رہے تھے اور زینب لائبریری سے نکل رہی تھی۔ اس نے سرخ رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے جبکہ کالی شال کو دونوں بازوؤں کے نیچے سے گزار کردونوں کندھوں پر اس کے پلو لٹکا رکھے تھے۔ پیروں میں بلوچی جوتے تھے۔ زینب نے سلام کیا۔ میں نے خالد کو اشارہ کیا تو وہ لائبریری سے ذرا پرے ایک بینچ پر جا کے بیٹھ گیا۔ ایک گھنٹے بعد خالد پہنچا تو اسکا رنگ بدلا بدلا سا تھا ویسے بھی خالد رنگ کا سانولا لڑکا تھا، اسکی بڑی مونچھیں ایک چھوٹی سی ناک اور موٹے ہونٹ تھے۔ میں نے کتاب بند کرکے دریافت کرنے کی کوشش کی تو اس نے زینب کے گھر پر چھاپہ، جامعہ کے باہر کمرے پر فائرنگ جہاں زینب اپنی سہلیوں کے ساتھ رہائش پزیر تھی اور پرچوں میں فیل ہونے کی خبریں سنا کر مجھ سے میری سانسیں چھیننے کی کوشش کی، میرا حلق خشک ہوگیا۔ لائبریری میں بلب کی روشنی میرے اردگرد گھومنے لگی۔ میرے پیروں تلے زمیں کھسک گئی۔ میں نے خالد کو تسلی کے کچھ جملے بول دیے اور لائبریری سے نکل کر ہاسٹل کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں خالد نے بتایا کہ زینب دو دنوں سے کمرے میں اکیلی ہے اسکی ساری سہلیاں اپنے اپنے گاؤں جا چکی ہیں۔

رات دیر گٸے مجھے نیند آئی میرے دماغ میں زینب کی آج کی ملاقات تھی۔ وہ کتنی نڈر تھی کہ وہ اس نظام سے ڈرتی نہیں تھی۔ اس کے چہرے کے تاثرات سے کسی پریشانی یا خوف کا ادراک ہوتا تھا نہ ہی اس نے خالد کے ساتھ کسی ڈر کا ذکر کیا تھا۔ وہ ایک معقول قسم کا مزاج رکھتی تھی جب وہ بولتی تو سنہرے الفاظ اسکے منہ سے خوبصورت آبشار کے مانند گرتے۔

اگلی صبح جب نیند سے بیدار ہوا تو نومبر کی ہلکی ہلکی سرد ہوائیں چل رہی تھیں۔ کمرے میں کتابوں سے زیادہ سگریٹ کے ڈبے، ماچس کی تیلیاں، بکھرے قلم، کھلی کتابیں، جگہ جگہ سگریٹ کی راکھ، کسی کونے میں میری ٹوٹی چپل اور کالی بالٹی رکھی تھی۔ اتوار کا دن تھا اور زینب کی تنظیم والے آج شعیب کی شہادت پر جامعہ میں ایک پروگرام کرنے والے تھے۔ اٹھتے ہی میں نے موبائل ہاتھ میں لیا اور واٹس ایپ پر آج کے پیغامات کا جائزہ لے رہا تھا کہ ایک تصویر ملی جس کے ساتھ ایک لڑکی کی خودکشی کا بیان تھا جس میں لکھا تھا کہ پرچوں میں فیل ہونے پر جامعہ کی کسی لڑکی نے گلے میں پھندا ڈال کر خود کشی کرلی ہے۔ جب میں نے تصویر کو دیکھا تو میرے جسم سے میری روح نکل گئی میری سانسیں رک سی گٸیں۔ بلوچی کشیدہ سے مرصع قمیض کھینچی ہوئی معلوم ہوئی، قمیض پر چَکَّن کے دھاگے الگ الگ اور گریبان کھلا تھا اور گندمی رنگ کے گالوں پر خون کی ننھی بوندیں نمایاں تھیں۔ پنکھے سے لٹکتی ہوئی کالی شال میں زینب کی گردن ٹیڑھی ہو چکی تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.