مزدور کا خون

تحریر: عمران بلوچ

جب بھی ہم مزدوروں کی بات کرتے ہیں تو ہمیں ایک ہی جھٹکے میں شکاگو کی سڑکوں پر موجود خون کی بہتے لکیریں تصوراتی طور پر دکھائی دیتے ہیں یا کسی بزگر کی کدال اس کے کندھے پر لٹکتی ہوئی، قمیض کی چاک بغل تک سرخ دھاگے سے سلی ہوئی۔ یا کسی فیکٹری میں پیلی ٹوپی سر پر رکھا ہتھوڑا لوہے کو کوٹتا ہوا یا کسی کان کن جس کی ناک کے نتھنے کالے دھوئیں سے بھری ہوئی آنکھوں میں فلما جاتی ہیں۔

اشرافیہ طبقہ ہمیشہ سے ظلم و جبر کرتا دکھائی دیتا ہے وہ میکسیکو میں جینگو جیسے مزدور کے پیٹھ اور سینے پر چابک کے ضرب ہوں یا عرب کی ریگستان میں بلال کا تپتا جسم ہو یا افریقہ میں غلاموں کے بازار میں غلاموں کی منڈی ہو اشرافیہ طبقہ اپنی ایڑی کی زور لگا کر غلام کو ہمیشہ اپنی جوتی کی نوک پر رکھ کر اس کے ہڈیوں سے اس کا گوشت الگ کرنے پر تلا ہوتا ہے۔

گویا مزدوری بیلچہ اور کدھال کے ساتھ چمٹی ہوئی یا اس کی کوئی اور شکل ہے ان خیالات کی ہر کوئی اپنے زاویوں کے مطابق پیمائش کرتا ہے اس کا احساس مجھے تب ہوا جب میری بیٹیوں پر مجھے محنت کرنی پڑی ان کی پڑھائی پر ان کے اٹھنے بیٹھنے پر محنت ان کو زندگی کے سلیقوں سے واقف کرنا تب مجھے یہ بات سمجھ آئی کہ دنیا میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں جو اپنے حصے کی مزدوری نہ کرتا ہو۔

اسی وقت مجھے ایک جھٹکا سا لگا کہ بلوچستان کے ماں باپ جو اپنے جوان بچوں پر اپنی تمام تر وسائل بروکار لاتے ہیں جب وہ سمجھ بوجھ کے قابل ہوتے ہیں تو ان کو اشرفیہ ہڑپ کر ان کی ڈیہاڑی بند کر دیتی ہے۔
تب احساس ہوا بلوچستان کا مزدور تو بلال کی تپتی جسم سے زیادہ تڑپ رہے ہیں جینگو کے جسم چابک کے ضرب سےزیادہ تو ان کے روح پر ضربیں نصب کی جاتی ہیں۔

میری امی نے اپنی ڈیہاڑی کے انتظار میں 27 سال تک دونوجوانوں پر مزدوری کی میرے ابو نے 27 سال تک تپتی سورج میں پسینوں سے شرابور اپنی مزدوری اپنی جوانوں پر کی جب ان کی ڈیہاڑی کا وقت ہوا جب ان کا بویا ہوا بیچ درخت بن چکے تھے جب یہ دو درخت پھل اور سایہ دینے کے قابل ہوئے تو اشرافیہ کا حکم ہوا عید کے روز اسے دو جوان درختوں لکڑیوں کی ضرورت ہے اپنے ہانڈیوں میں موجود پکوان پکانے کے لیے۔
بغیر ڈیہاڑی لیئے میرے والدین کی لگائی ہوئی درختوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا۔

شکاگو کی سڑکوں پر بہتا خون میری امی کے گال اور استین سے ٹپکتا خون اسی خون کی طری سرخ تھا جب اسنے اپنے جوان بیٹے کے سینے پر چہرہ دبوچ کر چیخ ماری تھیں۔
ہانپتا کانپتا میرا بوڑھا باپ جیب سے قلم نکال کر گھنٹوں اپنی مزدوری کو صفحوں کے حوالے کر جاتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.