بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی جانب سے شہیدِ وطن کامریڈ فدا احمد بلوچ کی 33ویں یومِ شہادت پر کراچی، حب اور پنجگور میں تعزیتی ریفرنسز منعقد کیئے گئے اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا

رپورٹ: سازین بلوچ، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی جانب سے شہید وطن کامریڈ فدا احمد بلوچ کی 33ویں یومِ شہادت کے موقع پر مختلف زونوں میں تعزیتی ریفرنسز منعقد کیئے گئے اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا جس میں کراچی اور حب زون کا مشترکہ ریفرنس منعقد ہوا جبکہ پنجگور میں بھی شہید کی یاد میں ریفرنسز کا انعقاد کیا گیا۔

شہیدِ وطن فدا بلوچ کی عظیم قربانیوں اور لازوال جدوجہد کو یاد کرتے ہوئے کہا گیا کہ شہید فدا احمد نے بلوچ سماج کا سائنسی تجزیہ کرتے ہوئے قومی سیاست کو سائنسی کے خطوط پر استوار کرکہ عظیم کارنامہ سرانجام دیا۔

انہوں نے بلوچ کی بکھری پرتوں کو ایک قومی دھارے میں یکجا کرنے اور متوسط عوام کے حقوق کی جدوجہد منظم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جبکہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا 1984 میں انضمام کرکہ قومی نرسری کو بلندی کی معراج تک پہنچا کر تاریخی کارنامہ سرانجام دیا۔

اسی طرح بی این وائی ایم کی صورت میں عوامی فرنٹ تشکیل دیکر بلوچ قوم کی ماس پارٹی کی تشکیل کا سہرا بھی فدا احمد کے سر سجا جنہوں نے اپنی جدوجہد کے اندر یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ بغیر ماس پارٹی کی قومی جدوجہد کسی منزل تک نہیں پہنچ پاتی، اس لئے انہوں نے اس خلا کو پُر کرتے ہوئے قومی تاریخ کا عظیم کارنامہ پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

شہید فدا احمد بلوچ قومی سیاست کو طبقاتی خطوط پر منظم کرنے کے فلسفہ کا داعی تھا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ بلوچ سماج کی فرسودہ قبائلی و نیم جاگیرداری باقیات قومی ترقی و انقلاب کی راہ میں رکاوٹیں ہیں اس لئے جدوجہد کا پسماندہ عوام کے طبقاتی تابع میں لانا لازمی امر ہے۔

انہوں نے اپنی فکری بالیدگی اور دور اندیشانہ حکمت عملیوں کے سبب قوم کی منتشر پرتوں کو یکجا کرنے میں گراں قدر خدمات سرانجام دیئے۔

بلوچ قوم کی بدبختی و نابالیدگی کے سبب برادر کشی کا سنگین دور شروع ہوا اور تخریبی عناصر نے فائدہ اٹھاتے ہوئے فدا احمد بلوچ کو دوئم مئی 1988 کو شہید کر دیا اور بلوچ قوم کو ایک عظیم سیاسی رہبر سے مرحوم کر دیا۔

شہید فدا احمد کی شہادت کے بعد انکے سیاسی وارثوں نے فدا احمد کے لہو سے قطعی وفا نہ کیا بلکہ ہر مقام پر انکی عظیم قربانیوں کا سیاسی سودا کیا اور من چاہا دام بھی وصول کیا۔ جبکہ بلوچ قومی سیاست فدا احمد کی شہادت کے بعد زوال پذیری کا شکار ہو کر آج تاریک ڈگر تک پہنچ گئی ہے۔

فدا احمد کا فلسفہ اپنی ضرورت کا تقاضا آج بھی اسی شدت سے کر رہا ہے جیسے انکے جیتے جی کر رہا تھا کہ بلوچ قوم کو انکی سماجی ساخت کے مطابق سائنسی خطوط پر منظم کر کہ درست سیاسی راہ پر گامزن کیا جائے تاکہ اس تاریک عہد کے اندر روشن راہیں منور ہو جائیں اور بلوچ راج متحد ہو کر صدیوں کی ازیتوں اور ذلتوں بھری زندگی سے نجات پا کر جدید دور سے ہم آہنگ ہو جائے۔

آخر میں بی ایس او کے ارکان نے کامریڈ فدا احمد بلوچ کے فکر کو حتمی منزل تک پہنچانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے انکے ‘اتحاد جدوجہد آخری فتح تک’ کے فلسفے کو بلوچ سماج کے وسیع تر پرتوں تک پہنچانے کا عہد کیا۔

دریں اثناء شال زون نے فدا ڈے پر لاپتہ طلباء کے احتجاجی مظاہرے میں شریک ہو کر اظہار یکجہتی کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.