یروشلم اور منافق مسلمان

تحریر: سہیل بلوچ سرپرّہ

دوہرے معیار کے مسلمان اس بات پر شدید غم و غصے میں ہیں کہ مسجد اقصیٰ کے قریب معصوم مسلمانوں کا خون ناحق بہایا گیا لیکن اسی دن افغانستان کے کابل میں 21 سے زائد مسلمان بچیوں کو بھی مارا گیا لیکن ان مسلمانوں کے لئے نا تو پاکستان میں نا ہی کسی اور اسلامی ملک میں ان کے افسوس کیا گیا بلکہ یوں کہا جائے افغانستان کے مسلمانوں پر ظلم سے باقی دنیا کے مسلمانوں کو دُکھ تو دور بلکہ پرواہ ہی نہیں ہے۔ تو بے جا نہ ہوگا, چاہے وہ ظلم امریکی و نیٹو فوج کا ہو یا طالبان کا ہو۔

مسلمانوں کی منافقت کا اندازہ اسی سے لگا لیں اگر نہتے مسلمانوں پر اسرائیلی پولیس فائرنگ کرے تو ظلم اگر حمّاس نہتے اسرائیلیوں پر راکٹ داغے تو یہی مسلمان جشن مناتے ہیں کہ ہم نے اسرائیل سے بدلہ لے لیا۔

قرآن میں ایسی کوئی بھی آیت یا ایسی حدیث موجود نہیں جو اس بات کو واضح کرے کہ صرف فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں پر ظلم سے واویلہ مچایا جائے ؟
قرآن میں تو ہے کہ ایک انسان کا قتل گویا ساری انسانیت کا قتل ہے لیکن مسلمان غیر مذاہب کے عام لوگوں کو قتل کرنے میں کبھی نہیں ہچکچاتے اور اپنے عام لوگوں کے قتل ہونے پر توقع رکھتے ہیں کہ پوری دنیا ہمارا ساتھ دے کر اُس ظلم کو مٹانے میں مدد کرے۔

ریاست کی طرف سے دیئے نظریئے پر عمل کرنے کا نتیجہ ہے جیسے کہ پاکستان میں ہزاروں بے گناہ بلوچ و پختونوں کا قتل کیا گیا لیکن پنجاب کے کسی مسلمان کا خون نہیں کھولا۔ جبکہ کشمیر میں ایک برہان وانی کے قتل پر لاہور و کراچی میں احتجاج کیا جاتا ہے۔
مظلوم کو مذہب کی بناء پر نہیں اس کی مظلمویت کے بناء پر ساری دنیا کے لوگ اس کا ساتھ دے کر ظالم سے پوچھ گُچھ کریں۔

اور یہی حال ترکی اور ایران کا بھی ہے۔ ترکی کرد مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے لیکن فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم سے وہ خون کے آنسوں روتے ہیں۔ کیا کرد مسلمانوں پر ظلم اسلام سکھاتا ہے یا صرف فلسطین و کشمیر پر واویلہ مچانا اصل اسلام ہے ؟

یہ کس آیت یا حدیث سے ثابت ہے کہ مکہ مدینہ اور یروشلم کی سرزمین کے لئے جان قربان کرو اور دنیا کے دوسری جگہوں پر فتنہ و فساد برپا کریں۔

اس سارے ڈونگ میں سعودی عرب کا ایک الگ مقام ہے یا نزدیک کے عرب ممالک کو اس حد تک پرواہ نہیں کیونکہ ان کے مفادت نہ اسرائیل سے وابستہ ہیں نا ہی فلسطین سے ہیں۔ اور اگر اسرائیل سے وابستہ ہوتے ہیں تو امریکہ کی سرپرستی میں ابرائم اکارڈ کا ڈیل کر لیتے ہیں۔

ترکی کے مسلمانوں کو یروشلم کے ساتھ کرد مسلمانوں پر ظلم کے خلاف بھی ہونا چاہیئے اور اگر ایرانی مسلمان ہیں تو بھی فلسطین کے ساتھ شام میں حوثی باغیوں کا نشانہ بننے والے عام مسلمانوں پر خون کے آنسو رونا چاہیئے۔
ایسے ہی اگر پاکستانی مسلمانوں کو بلوچستان,خیبر پختونخوا اور افغانستان کے مظلوم عوام پر ظلم سے احتجاج کرنا چاہیے۔

ظلم کو مذہب اور علاقوں کے دائروں سے نکال کر ظلم کہنا ہی اصل انسانیت ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.