سرخ پرچم سرنگوں نہیں ہوتے

تحریر: محمد خان داؤد

جب اس کے گھر پر لیوز کا حملہ ہوا، لیویز چادر اور چار دیواری اور بہت سی بلوچی روایات کو یک سر نظر انداز کر کے وہاں پہنچی جہاں سرخ پرچم کا عاشق اپنے چھوٹے سے گھر میں رہتا ہے تو میں سمجھا اس بات کو لیکر سوشل میڈیا پر بہت شور ہوگا اور سوشل میڈیا کا میدان جل اُٹھے گا۔
پر ایسا نہیں ہوا۔
یہ بات اہم نہیں کہ ایسا نہیں ہوا۔ پر یہ بات اہم ہے کہ ایسا کیوں نہیں ہوا
کیا وہ دھرتی کا عاشق نہیں۔
کیا وہ یہ نہیں چاہتا کہ کتابیں اور خوشبو آزاد ہو۔
کیا وہ یہ نہیں چاہتا کہ زندگی اور خوشبو یوں ہیں رواں دواں رہے۔
کیا وہ یہ نہیں چاہتا کہ کتابیں باتیں کریں اور محبت خوشبو بن کر اُڑے۔
کیا یہ وہ نہیں چاہتا کہ زندگی کا چاند اور آکاش کا چاند کبھی گرہن زدہ نہ ہو۔
کیا یہ وہ نہیں چاہتا کہ یوں ہی روشنی رہے۔
کیا وہ یہ نہیں چاہتا کہ سورج طلوع رہے اور روشنی کے مینار یوں ہیں اُجالا کیے رہیں۔
کیا یہ وہ نہیں چاہتا کہ مائیں مسکرائیں اور ان کے بدن سو خوشبو پھوٹے۔
کیا یہ وہ نہیں چاہتا کہ دھرتی ماں جیسی ہو اور ماں دھرتی جیسی۔
کیا یہ وہ نہیں چاہتا کہ زندگی کو بھی زندگی ملے
پر وہ کون ہیں جو گھر میں بندوق کے زور پر گھستے ہیں اور ماؤں کو ڈراتے ہیں اور معصوم مائیں سہم جا تی ہیں۔
کیا وہ یہ نہیں چاہتا کہ ہر طرف”بامسار!“ہو۔
کیا وہ یہ نہیں چاہتا کہ زندگی کالی کوٹھڑیوں میں مقید نہ ہو۔
کیا وہ یہ نہیں چاہتا کہ کتابیں باتیں کریں اور ہما رے کان ہمہ تن گوش ہوں۔
کیا وہ یہ نہیں چاہتا کہ سرخ پھریرہ یوں ہی بلند رہے
کیا وہ یہ نہیں چاہتا کہ سرخ پرچم میں جلتا فانوس یوں ہی جلتا ہے
وہ بہت کچھ چاہتا ہے، پر ہر بار بندوق اس کے گھر کا رخ کرتی ہے اور ایسا کچھ ہو جاتا ہے جس سے بامسار بجھ کر گر جاتا ہے اور ہر طرف اندھیرا پھیل جاتا ہے۔
اس بار بھی ایسا ہی ہوا جب وہ اپنی محبت اور کتابوں کے ساتھ اپنے کچے گھر میں موجود تھا تو لیویز اہلکار اپنی بھونکتی بندوقوں کے ساتھ اس پر حملہ آور ہوئے اور اسے زدو کوب کیا، اسے گالیاں دیں، اسے ڈرایا، دھمکایا اور جاتے ہوئے اسے ظہور بلیدی کے گھر کا پتا دے گئے۔

جب سوشل میڈیا آگ بن کر کیوں نہیں جل اُٹھا جب بھی ہم جیسے دانشور اپنی آئی ڈی پر میلے شعر اور کسی حسینہ کا فوٹو لگاتے نظر آئے ہم نے ظریف رند کے فوٹو کے ساتھ ایسے الفاظ کیوں نہیں لکھے کہ؛ “حلقہ مری زنجیر کا۔۔۔
ہم نے اس کی تصویر لگا کر ایسے شبد کیوں نہیں لکھے کہ؛
یہ گھناؤنی گھڑی
آگ آگ آسماں
چیختی ہے مورنی
مینہ برس
مینہ برس
مینہ برس
رول مت نراس میں
آ کہیں کھلی زباں
بے زباں پیاس میں
مینہ برس
مینہ برس
مینہ برس
ھانپتے ملیر میں
ٹھور ٹھور ہے الاؤ
آگ ہر سریر میں
مینہ برس
مینہ برس
مینہ برس
آؤ بجلیوں، گھٹاؤ
اب نہ سہہ سکیں گے تاؤ
آؤ آؤ آؤ آؤ۔۔۔

وہ آتے ہوئے اس پر الزام لائے ایسا الزام جس کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ؛
“اساں تے آندہ الزان جگ جئین جا۔۔

اور جاتے ہوئے وہ اسے ظہور بلیدی کا پتا سمجھا گئے
وہ ظہور بلیدی کے گھر کیوں جائے؟ ظہور بلیدی ایک کرپٹ سیاست کار ہے۔ اس کی سیاست میں موجودگی پیسے، بندوق اور کمداروں کے زور پر ہے
جب کہ وہ دھرتی کا بیٹا ہے اور اس کی سیا ست میں موجودگی جدوجہد، کتابوں اور خوشبو کی وجہ سے ہے وہ ہر گز ہر گز ظہور بلیدی جیسا نہیں۔
اور ظہور بلیدی بھی ہر گز ہر گز اس جیسا نہیں۔
پر آج اس کے لزرتے ہاتھوں میں بس کتابیں، نظریہ اور فانوس والا سرخ پرچم ہے۔
جب کہ ظہور بلیدی کے پاس اس وقت بہت کچھ ہونے کے علاوہ اس لیویز فورس کا اختیار بھی ہے جو وہ جس پر چاہے چڑھ دوڑائے اور جس پر چاہے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرے۔
پر ظہور بلیدی شاید یہ بات نہیں جانتا کہ ظریف رند کے ہاتھوں میں بس ”بامسار!“ نہیں پر اس کے ماتھے پر ماں کا بوسہ بھی ہے اور وہ بوسہ کبھی پرانا نہیں ہوتا۔
اس کی آنکھوں میں دھرتی کے سپنے بھی ہیں اور سپنے کبھی آلودہ نہیں ہو تے، اس کے پیروں میں دھرتی کی خاک بھی ہے اور وہ اس خاک سے اپنا دامن آلودہ کیے رہتا ہے۔ اس کے نینوں میں آزاد دھرتی کے خواب بھی ہیں۔۔۔ ظہور بلیدی اس پر بندوق سیدھی کر سکتا ہے پر ان بلند ہاتھوں کا کیا کرے گا جن ہاتھوں کو دیکھ کر مجھے ایاز یاد آتا ہے جس نے لکھا تھا کہ؛
”اعلان ہزاریں مان نہ رگو!۔۔۔

ظریف رند اکیلا نہیں وہ دھرتی کا اعلان ہے۔
ایسا اعلان جس اعلان کو دھرتی کا ذرہ ذرہ سن رہا ہے۔
ظریف رند نیا سویرہ ہے اور رات کے آخری پہر نئے سویرے سے ڈرتے ہیں۔
ظریف رند آپ ہی پرچم اور آپ ہی نظریہ ہے۔
اور وہ سب طاقتیں اس سے خائف ہیں جو نہیں چاہتیں کہ؛
سویرہ ہو۔۔۔
اُجالا ہو۔۔۔

ظریف رند پرچم ہے۔
رنگ بہ رنگی پرچم نہیں
”باپ“ اور باپ کے چاہنے والوں کا پرچم نہیں۔
وہ سرخ پرچم ہے
وہ دھرتی کا پرچم ہے
اور دھرتی کا پرچم کبھی سرنگوں نہیں ہوتا
وہ کل بھی کہتا تھا
وہ آج بھی کہتا ہے
“وہ دھرتی کا پرچم ہے!۔۔
وہ سورج ڈوبا، پیالے میں
بھر دیا کس نے لال لہو
سب گھونٹ گھونٹ جو پیتے ہیں
اور جیتے ہیں
لو رات ہوئی، ہر تالو میں
تارے تارے کا تیر چبھا
سب اپنی تڑپ چھپاتے ہیں
اور گاتے ہیں
”دھرتی
دھرتی
دھرتی
دھرتی میں بھی ہوں
جو تم بھی ہو۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.