انقلاب برپا کرنے والے نظریاتی سنگت !

تحریر: سراج بلوچ

آج اگر ہم دنیا بھر کی طرف اپنے شعوری نگاہ سے دیکھیں تو جتنی بھی قومیں ہیں جو آج آزادی جیسی نعمت کی وجہ سے سکھ کا سانس لے رہے ہیں ان کے پیچھے ان کے عظیم انقلابی کامریڈوں کا جدوجہد ہے ان کا یہ جدوجہد جو کہ ایک طویل، کٹھن و دشوار راستوں سے شروع ہوتا ہوا بالآخر سرسبز باغ و روشن چراغوں کی طرف ختم پذیر ہوتا ہے۔ جہاں وہ غلامی کی غلیظ زنجیروں کو توڑ کر آزادی کی مہکتی پھولوں کے ساتھ سنور جاتے ہیں۔

ایک مغلوب قوم میں انقلاب برپا کرنے والے نظریاتی سنگت اس غلام کے لئے ہرگز کسی پیغمبر سے کم نہیں ہوتے جو ان کو اندھیروں سے نکال کر روشنیوں کی طرف راغب کر تے ہیں ۔


نظریاتی سنگت کسی جادوگر سے کم نہیں ہوتے جو اپنے مخلص مزاج، وژن اور قومی ہمدردی رکھنے کی وجہ سے جلد از جلد اس قوم کے مسیحا بن جاتے ہیں۔ جب ہم بات ایک نظریاتی سنگت کی کرتے ہیں تو یہ ذہن میں رہے کہ یہ بلکل ہی عام عوام سے بہت ہی زیادہ مختلف مزاج کا مالک ہوتا ہے۔ عام لوگ جو اپنی زات تک محدود رہتے ہیں اپنے گھر بار یا کہ اپنی نفس کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتے لیکن وہیں پر ایک انقلابی اپنے نظریات کا پرچار کرتے ہوئے اپنی زندگی اپنی خواہش سب کا گلا گھوٹ کر آزادی جیسی عظیم نعمت کی طرف راغب ہو جاتا ہے ۔ اگر ہم ایک انقلابی کی زندگی پر غور کریں اس کو سمجھنے کی کوشش کریں تو یہ دکھ ، درد تکلیف، جیل و زندان پھانسی کا پھندا اور ہمارے ہاں تو مسخ شدہ لاشیں ،قلعی کیمپ جیسا دوزخ ،ڈرل مشین و سگریٹ سے ایک ایک عضوے کے ساتھ کھلواڑ کرنا یہ کوئی عام انسان برداشت نہیں سکتا اگر ایک انقلابی ان کو برداشت کرتا ہے اس ظلم کو ہنستے ہنستے سہتا ہے تو اس کے پیچھے ان کے عظیم نظریات ہیں۔ وہاں سے کبھی پیچھے ہٹنے نہیں دیتے۔

دنیا بھر کی یہ دولتیں ،آرائشيں ایک انقلابی نظریہ رکھنے والے کو خرید نہیں سکتے جہاں ہم بات ایک انقلابی کی نظریے کی کرتے ہیں تو وہ ہمیشہ باہمت وسیع سوچ رکھنے والا کریٹیو مائنڈ اور اس کے ساتھ ساتھ ایک وژن رکھتا ہے جس کو مدنظر رکھ کر وہ ایک ہجوم جو آقا کی نفسیات میں بری طرح پھنسا ہوتا ہے یہی انقلابی نظریہ رکھنے والا اپنی نظریات اور وژن کو سامنے رکھ کر اس غلام کو آقا کی اس غلامی والے جال سے باہر نکالنے کا راستہ دکھاتا ہے ۔اس کی عظم کو بلند کرتا ہے اس کے شعور میں اضافہ کرکے اس کو ذات پات کے دائرے سے باہر نکال کر عظیم انسانی کار خدمت میں لگا لیتا ہے ۔

انقلابی نظریہ چونکہ خود آقا کے لئے محکوم کی طرف سے ایک بہت ہی خطرناک ہتھیار ہے اگر ہم تاریخ کو اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کے یہ وحشی ریاست نظریاتی لوگوں سے کتنا خوفزدہ ہوتا ہے اور اس خوف کی وجہ سے آقا بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر اپنے ناجائز طاقت کا استعمال کرتا ہے محکوم کے جذبات اور عزتِ نفس سے کھلواڑ شروع کرتا ہے تاکہ وہ اپنے اصل ہدف نظریہ سے کنارہ کش ہو کر جذبات کا مظاہرہ کرے اپنی انقلابی نظریہ کی بجائے اپنی نفسیات کے چنگل میں پھنس جائے جس کا شکار ہم آسانی سے کریں اور اکثر وہ اپنے اس گھناٶنے چال میں کامياب بھی ہوتا ہے۔

لیکن پختہ نظریہ رکھنے والے انقلابی سنگت کانٹوں کو بستر بنا کر اپنی ذاتی خواہشات کا قتل کر کے اپنے لمہ وطن (مادروطن ) پر امر ہو جاتے ہیں لیکن اپنے نظریے سے کبھی مکرتے نہیں وہ خود کو اپنے نظریات کے گرفت میں رکھ دیتے ہیں یہ جملہ لکھتے ہی پتہ نہیں کیوں مجھے شہید حمید شاہین و سنگت ثناء بلوچ یاد آگئے ۔ ویسے تو بلوچ قومی تحریک میں جڑے تمام نظریاتی سنگت اپنی مثال آپ ہیں ۔ ہم چی گویرا و بھگت سنگھ کو پڑھتے ہیں ، لینن کی نظریہ کی پرچار کرتے ہیں کبھی کبھار اگر مسجد کا رخ کریں تو ملا سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا وہ عظیم قربانی بھی سنتے ہیں ۔لیکن یہیں پر قومی تحریک سے جڑے اپنے نظریہ کو ایمان بنا کر اس پر مکمل عمل پیرا ہونے والے اس دھرتی کے عظیم سپوتوں کو بھی قربان ہوتے دیکھتے ہیں ۔

ہاں بھائی یہی ہے نظریہ جو ایک انقلابی کے پاس ہوتا ہے جس کا پرچار وہ عام بزگر سے لے کر محکوم کے بچے بچے تک پھیلاتا ہے ان کو جینے کا حق دیتا ہے اپنے جائز حقوق مانگنے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ وطن پر حق حاکمیت کے جذبے سے سرشار کرتا ہے۔

اور اس غلام قوم میں انقلاب برپا کر کے ظالم و جابر آقا کے لئے وہ تمام تر استحصالی دروازے بند کر دیتا ہے جس کے پیچھے آقا ان معصوموں کا خون چوستا ہے اور یہ سب کچھ کر نے کے لئے ایک انقلابی سنگت مرتے دم تک جدو جہد میں لگ رہتا ہے اپنی نظریات کا پرچار کرتا رہتا ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.