تعلیم دشمن عناصر

تحریر: ثنااللہ بلوچ

گوکہ موجودہ تعلیمی نظام ایک ایسا نظام ہے جو انسان کو آدھا تیتر اور آدھا بٹیر کے مصداق کہیں کا رہنے نہیں دیتا لیکن یہی وہ تعلیم ہے جو کم از کم آگہی اور شعور کی جانب سفر کرنے کےلیے ایک بنیاد فراہم کر دیتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمیں ایک ایسا تعلیمی نظام دیا جاتا جو استحصالی حربوں اور انسانوں کو زنجیروں میں جکڑے رکھنے والی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ہمیں ہمت تواناٸی اور درست ساٸنسی حکمت عملی عطا کرتا جسے عام فہم میں انقلابی تعلیم کہتے ہیں۔ یہ تعلیم ہر محکوم اور جبر کے شکار انسان کےلیے لازمی ہے۔

لیکن بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ ہمیں تو اس تعلیمی نظام سے بھی محروم کیا جارہا ہے جو فقط آگہی کی جانب سفر کےلیے بنیادی ضرورت ہے۔ ھمارے اسلاف نے یقینا ان تعلیم، سماج اور قوم دشمن عناصر کو مکمل جان کر ہی تو کہا تھا کہ ان سرداروں کے سدھرنے کی کوٸی امید نہیں اب ان کو کچل دینا چاہیے۔

کوہ سلیمان کے لوگ اس جدید دور میں بھی جہالت اور پسماندگی کی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں بدقسمتی سے ہم پر ایک سرداری نظام مسلط کیا گیا ہے۔ سردار جاگیردار ہرگز نہیں چاہتے ہیں کہ یہاں لوگ قلم اٹھائیں اور تعلیم حاصل کریں بلکہ ان لوگوں کا منشور ہے کہ لوگوں ہماری غلامی میں مبتلا رہیں۔ کوہ سلیمان میں جتنے بھی سکول ہیں وہ سب سرداری نظام پر چلتے ہیں۔ اول تو سکول نہیں ہیں اگر کہیں کوئی سکول ہے تو وہ کسی سردارکی بیٹھک یا گودام ہے یا پھر وہ جاگیرداروں کے گرفت میں ہے۔ یہاں بچے بچیاں دور دراز سفر کرکے پڑھنے جاتے ہیں لیکن وہاں جاکر اساتذہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اسکول ان بستیوں میں موجود ہیں جہاں سرداروں کے اپنے فرنٹ مین ہیں وہ لوگ سرداروں کے کہنے پر اساتذہ سے پیسہ وصول کر کے اساتذہ سے ڈیوٹی نہیں لیتے کیونکہ جاگیرداروں کے بچے خود شہروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں یہاں غریبوں کے بچوں کا مسقبل تباہ ہو رہا ہے۔

تعلیمی ادارے نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے بچے بکریاں چراتے ہیں اور قلم کی بجائے ان بچوں کے ہاتھ میں بندوق دیا جاتا ہے سردار چھوٹے بڑے مساٸل پیدا کر کے لوگوں کو ایک دوسرے سے لڑاتے ہیں تاکہ ہمارا سرداری نظام برقرار رہے۔ جب بھی کوئی صحافی یا با شعور نوجوان ان ظالموں کے خلاف آواز بلند کرتا ہے تو اس کو دھمکیاں دی جاتی ہیں جس طرح ضلع بارکھان میں شہید صحافی انورجان کو بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ انورجان نے ہمیشہ ان لوگوں کے خلاف آواز بلند کی آخر کار ظالموں نے انورجان کو دن دیہاڑے بارکھان کے شہر کے قریب قتل کردیا لیکن آج تک انورجان کے قاتل آزاد گھوم رہے ہیں۔

میں کوہ سلیمان کے تمام باشعور نوجوانوں سے اپیل کرتاہوں آؤ ایک ساتھ مل کر جدو جہد کرتے ہیں قلم اور کتاب دوستی کا درس دیتے ہیں یقیناً قلم بندوق سے زیادہ طاقتور ہے۔ ہم بندوق کے بجائے قلم کو ترجیح دیں تب جا کر ہماری زندگیوں میں اور ہمارے علاقے میں ایک نئی صبح کا آغاز ہوگا اور ہمیں اس اندھیرے سے نکلنے میں آسانی ہوگی۔

جس طرح بلوچی زبان کے عظیم شاعر سعید مزاری فرماتے ہیں
بیا ماں ڈساں تھرا شف کھزیں روش بی
حق طلبگار باں ڈھیے حقدار کل
بے کس و بے نوا پھیرو لاچار کل
لنگڑانی جھساغیں اے نادار کل
ھاے بیمار کل
یک و دھمیے دڑدانی درمان باں
چو کہ یک مشت باں
چو کہ یک جان باں
نوخ ورنا اےپھیرنڈ یک تھران باں
زحم زیراں او کھکھاں شا در درکفاں
بارے نارا جناں بارے ڈیہی کھناں
حق لوٹھاں وثی
ظلم و زوراخیے سیاہیں سنگر سزاں
جیل و جولاں بھراں
حاکمانی محل کوٹ کھندی دھراں
کل زمیں بوس باں
شف ازیں روش بی
شف ازیں روش بی

ترجمہ: قلم کہتا ہے آؤ میں آپ کو بتاؤں کہ اندھیری رات کب ڈھل جائے گی حق کے طلبگار رہیں وطن کے حقدار سبھی بے کس و بے نوا بوڑھے لاچار سبھی بھوک کے مارے بیمار، سب ایک دوسرے کے درد کی درمان ہو جائیں یک مشت ہو جائیں نوجوان اور بوڑھے سب خنجر اٹھا کے جھونپڑیوں سے نکلیں اور نعرہ لگائیں اپنے حقوق کا مطالبہ کریں حاکموں کی یہ محل یہ ماڑی جب گر جائیں گے رات اس وقت روشنی میں تبدیل ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.