میری رنگت ، میری دشمن

تحریر: رخسار بلوچ

جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے اپنے معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم پر قدغنیں ہی دیکھ رہی ہوں۔ ان کے تعلیم کی کی راہ میں مسلسل رکاوٹیں حاٸل رہی ہیں۔ کیا لڑکیاں انسان نہیں ہیں؟ کیا ان کو پڑھنے کا حق نہیں ہے؟ ایک تو ہماری بلوچ سماج کی اناب و شناب باتیں اور تمسخرانہ و طنزیہ لہجہ بھی انسان کو جیتے جی ھلاک کر ڈالتا ہے۔ شاید اپنے اسی تمسخر و طنزیہ رویوں کی وجہ سے آج ہم مجموعی طور پر دنیا بھر میں مسخرہ بن چکے ہیں کوٸی ہمیں سنجیدہ نہیں لے رہا اور نہ ہی ہماری حالت پر سنجیدگی سے بات کرنے کو تیار ہے۔

ہم اس تمسخر بازی میں اس حد تک جا چکے ہیں کہ ہم انسانی تہذیب، برابری، انصاف، آزادی اور حاکم و محکوم کی نفسیات میں فرق کرنے سے عاری ہوچکے ہیں۔ ہم فقط اپنے جذبات کی قدر کرتے ہیں اور حقاٸق سے روگردانی انہی جذبات کی آڑ میں کرتے ہیں۔

بلوچستان میں اس وقت 70 فیصد سے زاٸد بچیاں بنیادی تعلیم سے محروم ہیں اور ھاٸیر لیول تک پہنچتے پہنچتے یہ ریشو اور بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ جہاں اس کے وجہ میں حاکم کا جبر و استحصال اور جبر پر مبنی پالیسیاں ہیں تو دوسری جانب اس قومی تعلیمی بحران میں ہماری اپنی غلطیاں، کوتاہیاں اجتماعی رویے اور حاکم کے نفسیات سے متاثر ہونا بھی ہے۔ ایسے ہی رویوں اور نفسیات کا شکار میری سہیلی شاذیہ سمیت ھزاروں بلوچ لڑکیاں بنی ہیں اور زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم کی گٸی ہیں۔

شازیہ اور میں پنجگور وشبود میں ایک ساتھ پڑھتے تھے۔ شاذیہ پڑھاٸی میں ہم سب سے تیز تھی۔ اس کی ڈراٸنگ، راٸٹنگ اور ریاضی بہت بہتر تھے۔ ششماہی امتحانات کے نتاٸج پرجب وہ پورے اسکول میں فرسٹ آٸی اور اس کے ڈراٸنگ پیپر کو اسمبلی میں پرنسپل نے مثال بنا کر پیش کیا تو میں نے کلاس میں کہا کہ شاذو یار کبھی ہمیں بھی تو ڈراٸنگ سکھاٶ اور ہماری راٸٹنگ بہتر بنانے میں ہماری مدد کرو تو وہ مسکراٸی۔ لیکن پیچھے سے آواز آٸی کہ تھوڑی سی سیاہی بھی اس سے لے لو تاکہ ہم اپنے آنکھوں کو کاجل کر سکیں۔

یہ ایک طنز تھا۔ ایسا طنز جو ہم لاشعور و عقل سے عاری لوگ اپنے سیاہ فام بلوچوں کےلیے کرتے ہیں۔ شاذیہ بھی سیاہ رنگت کی تھی اور اس کے بال گھنگریالے تھے۔ اکثر ان ساہ فام لڑکیوں کےلیے ہماری کلاس میں طنزیہ لہجے میں لفظ ”شیدی“ استعمال کیا جاتا تھا۔ نہ جانے ہمارے معاشرے میں تشدد کا مطلب فقط مار پیٹ کیوں لیا جاتا ہے۔ ذہنی اذیت دینے کے عمل کو تشدد میں شمار کیوں نہیں کیا جاتا۔

اس دن شاذیہ پہلی بار بنا کچھ بولے اٹھ کر باہر چلی گٸی،تھوڑی دیر انتظار پر جب وہ نہیں آٸی تو میں نے دیکھا کہ وہ کلاس روم کے پیچھے واٹر کولر کے پاس کھڑی ہو کر روٸے جا رہی ہے۔ میں نے پانی پلاکر دلاسہ دیا تو وہ کہنے لگی کہ کیا اپنی رنگت میں نے خود بناٸی ہے۔۔۔۔۔؟ کیا میرے بال میرے ماں باپ نے کسی لیبارٹری میں بناٸے ہیں۔۔۔۔؟ کیا میرے خدوخال میرے گھر والوں نے بناٸے ہیں۔۔۔؟ اگر نہیں تو پھر ان چیزوں کا طعنہ دے کر مجھے اذیت کا نشانہ کیا بنایا جاتا ہے۔ میرے ھاتھ میں جو کچھ ہے وہ میں ان سب سے بہتر انداز میں کرتی ہوں۔ میں نے ہمیشہ محنت کی ہے تاکہ میں قابل لاٸق بن کر ایک مقام حاصل کر سکوں اس اسکول اور معاشرے میں تسلیم کروایا جا سکوں مگر میری رنگت مجھے ان لوگوں کے برابر ہونے ہی نہیں دیتا۔

گلہ تو ان سے بھی نہیں ہے۔ ایسی ھراسانی کا شکار میں باہر بھی رہتی ہوں۔ میرے گھر والے خود بارہا مجھے کہتے ہیں کہ تم پڑھ کر کیا کروگی تمہیں تو ویسے بھی یہیں کہیں شادی کرنی ہے۔ میں بار بار احساس کمتری میں پڑتی ہوں یا پھر جان بوجھ ڈالی جاتی ہوں کہ میں ھار جاٶں۔ میں ایسے رویوں، ایسے کاٹ دار اور دل کو چھلنی کرنے والے طنزیہ جملوں سے تنگ آچکی ہوں۔۔۔۔۔۔یہ کہتے ہوٸے وہ دیوار کے ساتھ پیٹھ لگا کر اور شدت سے رو پڑی۔ اور اس دن کے بعد وہ کبھی اسکول نہیں آ سکی۔

کیا یہ عجب نہیں کہ شاذیہ جیسی بچیوں کے مستقبل کا فیصلہ ان کے رنگت کی بنیاد پر کی جاٸے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے اپنے انگریز حاکم کو دیکھا کہ وہ تیز رنگت کی ہے تو اب ہم سیاہ رنگت کو زلالت سمجھ بیٹھے ہیں۔ اور دن رات خود کو سفید کرنے کی چکر میں ہیں۔ کیا یہ از خود نوآبادیاتی نفسیات میں نہیں آتا۔۔۔۔۔۔۔۔کہیں ایسا تو نہیں کہ گورے حاکم تو چلے گٸے مگر انہی نفسیات، حربوں اور عادات کے حامل ان نیم گوروں کو ہم پر مسلط کیا جن کےلیے گورا چِٹا ہونا عظمت کی علامت ہے جب کہ سیاہ رنگت پستی، ذلالت اور کم تر ہونے کی علامت ہے۔

کیا ہمارے سماج میں حاکم کی بالاتری کے نفسیات نفوذ کر جاچکے ہیں؟ حاکم تو خود کو اہم تر بالا تر سمجھتا ہی سمجھتا ہے مگر ہم وطن زادے بھی اسی نفسیات کا شکار کیوں ہو رہے ہیں؟نوآبادیاتی نفسیات سے متاثرہ ہمارے سماج کےلیے شاذیہ کی رنگت اسے کم تر ثابت کرتی ہے، کسی کا سوچ و فکر اسے کم تر، پست و قوم دشمن ثابت کرتی ہے۔ یہ ہوبہو وہی نفسیات ہیں جو انگریز برصغیر کے باشندوں کے لیے استعمال کرتا تھا اور موجودہ حاکم وطنی باشندوں کےلیے یہی الفاظ استعمال کرتا ہے۔ فرق صرف رنگت کا ہے کل یہ سب بولنے والا گورا تھا آج سانولا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.