کوہ سلیمان کے بے بس لوگ

ثنا اللہ بلوچ

اگر دیکھا جائے کوہ سلیمان یورینیم سمیت دیگر قدرتی وسائل ہونے کے باوجود بھی محرمیوں کا شکار ہے۔ کوہ سلیمان کے لوگ کیسنر جیسے موزی مرض سے آئے روز مر رہے ہیں۔ آج بھی یہاں کے وطن زادے قرون وسطٰی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اگر سیاستدانوں کی بات کی جائے تو اس وقت سات آٹھ ایم پی ایز اور ایم این اے یہاں سے منتخب ہیں، اگر ماضی کی طرف جائیں تو پیپلز پارٹی کے دور میں صدر پاکستان سردار فاروق خان لغاری، گورنر پنجاب سردار ذوالفقار خان کھوسہ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار دوست محمد خان کھوسہ تمام تر احباب کوہ سلیمان سے تعلق رکھتے تھے۔ اگر آج کی بات کی جائے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اس اعلٰی عوامی عہدے پر ہیں مگر افسوس کی بات یہ کہ کوہ سلیمان میں آج تک نہ کوئی معیاری اسکول موجود ہے نہ ہی کوئی ہسپتال نہ بجلی نہ پانی۔ پانی لانے کےلیے لوگوں کو سات آٹھ کلومیٹر کاسفر کرنا پڑتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جہاں لوگ آٹھویں صدی میں رہ رہے ہیں۔

لیکن بدقسمتی سے ہم آج تک اپنے دشمنوں کو پہچان نہیں پاٸے جنہوں نے پچھلے ستر سالوں سے ہمارے حقوق ھڑپ کیے اور ہمیں نسل در نسل تباہ و برباد کیا اور مزید تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

اس جدید دور میں بھی ہم اپنے مریضوں کو کندھے پر اٹھا کر شہروں کی طرف لے جاتے ہیں۔ افسوس کہ وہ مریض راستے میں ہی دم توڑ دیتا ہے اگر وہ ہسپتال تک پہنچ بھی گیا تو وہ ہسپتال میں ہی دم توڑ دیتا ہے اس لیے کہ اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے نجی ھسپتال علاج نہیں کرتے۔

اگر بات کی جائے کوہ سلیمان کے میدانی علاقے کی زندہ پیر میں سیمنٹ فیکٹری موجود ہے لیکن وہاں کے مقامی لوگوں کو روزگار نہ دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ فیکٹری میں مقامی مزدور نہ ہونے کے برابر ہیں ان کو اپنے حقوق سے محروم کیا جارہا ہے سب کے سب غیر مقامی ہیں لاہور اسلام آباد کے لوگ وہاں فیکٹری میں کام کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہاں کے مقامی لوگ بھوک اور غربت کے باعث مختلف غیرقانونی راستے اختیار کر رہے ہیں۔

وہ لوگ چوری ڈکیتی اور انسانی جان ضائع کرتے ہیں وارداتیں کرکے پنجاپ پولیس اور سرداروں کو بھی حصہ دیتے ہیں پنجاب پولیس ان لوگوں کےخلاف ایکشن لینے کی بجائے ان لوگوں کے ھاتھ میں مزید ہتھیار دیتی ہے۔ بلوچ نوجوانوں کو بلوچ کے خلاف اکساتا دیتا ہے تاکہ حقوق لینے کی بجائے جرائم کے دنیا میں مبتلا رہیں۔ جن نوجوانوں کو یونیورسٹی اور کالجوں میں ہونا چاہیے تھا لیکن ان لوگوں کے ھاتھ میں ہتھیار دیے ہیں۔

یہ سوال ہم ریاست سے نہیں کریں تو کس سے کریں؟ آخر کیوں ہمیں اپنے حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے ہم قلم اٹھانا چاہتے ہیں آخر کیوں ہم سے کتاب اور قلم چھینا جاتا ہے؟ ان سب کا زمہ دار ریاست نہیں تو اور کون ہے ریاست چور اور ڈاکوٶں کےخلاف آپریشن کرنے بجائے عام بلوچوں گھروں میں گھس کر چادر اور چار دیواری کو پامال کر رہا ہے۔

ملکی اداروں کے انہی حرکتوں کی وجہ سے وہاں کے لوگ مزید ہتھیار اٹھاتے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ ملکی اداروں میں موجود پالیسی ساز چاہتے ہی نہیں کہ بلوچ نوجوان ان پیشہ ورانہ جراٸم سے چھٹکارا پاٸیں۔ ان کو بار بار اس بات پر اکسانا اور سماج سے بیزار کرکے ان کے ھاتھ ھتھیار دینا کس زمرے میں آتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.