مردہ سماج کے مُردار لوگ

تحریر: فرید مینگل

اگر ایک زندہ سماج کا مختصر تجزیہ کیا جاٸے تو اس میں زندہ ہونے کی بہت سی نشانیاں اور علامات ہوتی ہیں جنہیں آسانی سے جانا اور پہچانا جا سکتا ہے، لیکن ایک مردہ سماج کے مردہ ہونے کے ثبوت لانے کےلیے بہتا خون اور تڑپتی لاشیں بھی کافی نہیں ہوتیں۔ ماٶں کی آہ و زاری اور بہنوں کی چیخیں بھی اس مردہ سماج کو زندہ نہیں کر پاتیں۔

میں بھی ایک ایسے ہی مردہ سماج کا مُردار فرد ہوں۔ ایک ایسا سماج جس میں اپنے حق کےلیے آواز اٹھانا، مزاحمت کرنا مضر سمجھا جاتا ہے۔ جہاں بے گناہ نانک مینگل اور اشوک مینگل کو ”شہید“ کہنا میرے مردہ سماج کے مردار لوگوں کے ایمان کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ جی ہاں میں ایک ایسے سماج کا حصہ ہوں جہاں ظلم کے سامنے جی حضوری کرنے والا اور اس کی تابعداری کرنے والا بہادر بھی ہوتا ہے اور مینگل و بزنجو بھی، حاجی بھی ہوتا ہے اور شہید و ایماندار بھی لیکن ظلم کے سامنے جرأت انکار کرنے والا، ظالم کے ظلم کو للکار کر اپنی جان دینے والا ان القابات کا مستحق نہیں ہوتا کیونکہ مُردہ سماج کے مردار لوگوں کی بہادری و مینگلی کے اپنے الگ پیماٸش و پیمانے ہوتے ہیں۔ اس سماج میں چور، قاتل، ڈاکو، موالی اور وحشی درندہ صفت زانیوں کےلیے مینگل و بزنجو استعمال ہو سکتا ہے مگر شہید نانک و اشوک جیسے ظلم سے انکاری لوگوں کےلیے نہیں ہو سکتا۔ خیر انہیں ایسے القابات کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ ان کا مزاحمتی کردار اور ظالم کے ھاتھوں دن دیہاڑے قتل ہونا ہی ایک عظیم خطاب ہے۔ وہ انکار جو ہم بہادر و پرہیزگار مینگل و بزنجو ہرگز نہیں کر سکتے۔

نانک رام کے بیہمانہ قتل کے بعد ہم نے کہا تھا کہ ہم ایک ایسے سماج کا حصہ ہیں جو سماج میں ہونے والی ظلم اور جبر و بربریت پر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے اپنی باری کا اظہار کر رہا ہوتا ہے۔ اور بدقسمتی کی انتہا دیکھیے کہ وہ الفاظ مسلسل سچ ثابت ہو رہے ہیں۔ وہ سماج جس کے افراد نانک رام کے قتل پر غنودگی کے عالم میں تھے یا پھر کبوتر کی طرح اپنی آنکھیں بند کیے ہوٸے تھے اس کے بعد پے در پے ہونے والے ظلم و جبر کے واقعات کے باعث مر کر مکمل مُردار ہو چکا ہے۔ اب اس مردہ سماج کو دفن کرنا باقی رہ گیا ہے۔ آج اس سماج میں حرف انکار کرنے والا شہید نانک مینگل و اشوک مینگل کی طرح قتل تو ہوجاتا ہے لیکن زندہ مگر مردار لوگوں سے کسی قسم کا ہمایت حاصل نہیں کرسکتا۔ ظلم سے انکاری یہ لوگ اس قبیل کے بہادر لوگ ہیں جب مشرف کے دور میں وڈھ میں ہونے والے سرچ آپریشنز کے دوران ہم سب گھروں سے دور بھاگتے پھر رہے تھے تو یہی لوگ تھے جو وڈھ شاہی بازار میں بیٹھ کر ہمیں سامان پہنچانے کا ذریعہ بنتے تھے۔ یہ وہ بہادر لوگ ہیں جو اس دوران مینگل قلعے کی رکھوالی کرتے تھے۔ یہی وہ لوگ ہیں جب 2013 میں تقریبا ایک سال کےلیے وڈھ میں راشن بندی ہوٸی تو اکثر لوگ کاروبار چھوڑ کر چلے گٸے لیکن یہی لوگ نقصانات اور دھمکیاں برداشت کرتے رہے مگر اپنا وطن، اپنی سرزمین چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوٸے۔ وطن کے ان باشندوں نے جان دینا سیکھا ہے مگر لالین شہید میر محراب خان کے ساتھ شہید ہونے والے اپنے پرکھوں کی طرح وطن چھوڑنا نہیں سیکھا۔ شاید ہم انہیں اس بات کی سزا دے رہے ہیں۔

ان الفاظ سے میرا ارادہ کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں اور ایک مردہ معاشرے کے مُردار لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچ بھی کیسے سکتا ہے جب وہ مکمل مر کر بے حس ہو چکے ہوں۔ جس سماج میں ظلم و بربریت کے خلاف کلمہ حق کہنے اور جرات انکار کی ہمت ہی نہ ہو اسے مردہ نہیں تو اور کیا کہا جا سکتا ہے کیونکہ زندہ سماج اپنے اندر ہونے والے ہر مثبت و منفی عمل پر حساس ہوتا ہے۔ وہ خوشی کے مواقع پر جی بھر کے رقصاں ہوتا ہےجشن مناتا ہے اور غم کے موقع پر ایسا ماتم کرتا ہے کہ اس پر ظلم و بربریت اور آہ و بکا برپا کرنے والے ظالم ہی کانپ جاتے ہیں۔ لیکن یہاں میرے مردہ سماج میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔

ہم تو اس حد تک گنگے، بہرے اور اندھے ہو چکے ہیں کہ ہم اپنے قاتل کی شناخت تک نہیں کرنا چاہتے اور پھر اس بیہمانہ قتل سے فاٸدہ اٹھانے والوں کی نشاندھی کرنا تو اب تک ہمارے وہم و گمان میں ہی نہیں آیا۔ کل نانک رام مارا گیا، آج اشوک کمار مارا گیا پرسوں میری باری ہے اور اس کے اگلے دن آپ کی باری اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا جب تک ہم اپنے قاتلوں اور قتل سے فاٸدہ اٹھانے والوں کو پہچان کر ان کے سامنے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت نہ رکھیں گے۔ قاتل کو آپ کے میرے قتل کےلیے کوٸی بھی وجہ نہیں چاہیے کیونکہ اسے پتہ ہے اس قتل کے بعد میں جو کہونگا، جو بہانہ اور وجہ بتاٶنگا یہ مردہ سماج قبول کرے گی۔

اگر ہم ایک زندہ سماج کا حصہ ہوتے، اگر ہم مُردار نہیں ہوتے تو پچھلے 20 سال کے مسلسل جبر و درندگی اور آہ زاری پر کوٸی نہ کوٸی قدم اٹھا چکے ہوتے۔ اگر ہم زندہ ہوتے تو اپنے قاتل، اپنی میتوں سے فاٸدہ اٹھانے والوں اور ہماری قتل پر مسلسل تماشاٸی بننے والے سرکار کو ایک ہی پیمانے میں رکھ کر انہیں اپنا دشمن تسلیم کرتے اور آپسی عوامی اجتماعی بیٹھک لگا کر اپنے سماج دشمن کرداروں اور وحشی قاتلوں کے خلاف ایک حکمت عملی بناتے۔ قاتل، اس کے سہولت کار سرکار اور قتل سے فاٸدہ اٹھانے والوں کی شناخت کر کے ان کے خلاف باقاعدہ مورچہ زن ہوتے اور ہاں اس کے بغیر ہمارا زندہ ہونا محال ہے۔ جب تک سماج کا ہر مظلوم فرد، ہر پَرت، ہر زیلی قبیلہ ان تینوں وحشی کرداروں کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا ان کے گھناٶنی چالوں کو نہیں پہچانتا تب تک یہ سماج مردہ رہے گا اور اس کے لوگ مردار ہی رہیں۔ لوگ قتل ہوتے رہیں اور ہم آنکھیں بند کیے اپنی باری کا انتظار کرتے رہیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.