تعلیمی انقلاب یا تعلیم دشمن پالیسی

تحریر: عقیل جلال

تربت جو تعلیم کے حوالے سے کافی مشہور ہے یہ بلوچستان کا واحد شہر ہے جو تعلیم کے حوالے سے بلوچستان بھر میں زیادہ آگہی و شعور رکھنے کا دعویدار ہے لیکن پچھلے ایک دہائی سے ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے کہ یہاں ایک منصوبہ بندی کے تحت تعلیمی سرگرمیوں سمیت مختلف تعلیمی اداروں پر قدغن لگانے کا ایک سلسلہ جاری و ساری ہے۔

2013 کے بعد یہاں بہت سارے حربوں کے ذریعے اکثر و بیشتر تعلیمی اداروں کو یا تو بند کردیا گیا ہے یا پھر وہاں کے تعلیمی سرگرمیوں کو اتنا محدود کر دیا گیا کہ جو نہ ہونے کے برابر ہوں جن میں مختلف نجی اسکولوں کی بندش اور عطاشاد ڈگری کالج کے ہاسٹلز کی بندش شامل ہیں، ان تعلیمی اداروں کو متنازع بنا کر عام عوام کو تعلیم دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی دانستہ کوشش کی گٸی۔

حال ہی میں اسی تعلیم دشمن پالیسی کے تحت تربت پبلک لائبریری کو بند کر دیا گیا ہے جس سے سیکڑوں طلبہ و طالبات متاثر ہوئے ہیں، پبلک لائبریری تربت واحد لائبریری ہے جس میں طلبہ با آسانی رسائی حاصل کر سکتے تھے۔ تربت کے گرد و نواح اور دور دراز سے طلبہ تربت آکر اسی لائبریری کا سہارا لے کر اپنے تعلیمی سرگرمیوں کو منزل مقصود تک پہچانے کا ذریعہ بناتے ہیں، جو طلبہ تربت کے مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں وہ اس لائبریری کا سہارا لے کر اپنے امتحانات اور اسکالرشپس کی تیاری کرتے ہیں اور جو طلبہ فارغ ہوتے ہیں وہ یہاں سے اپنے ٹیسٹ وغیرہ کی تیاری کرتے ہیں لیکن ان سب کے باوجود تربت یونیورسٹی نے اس لائبریری پر قبضہ کیا ہوا ہے اور اپنی من مانی کر کے اسے عام طلبا کےلیے بند کر دیا ہے۔

اس وقت وبا کی وجہ سے تمام یونیورسٹیوں کے کلاسز اور امتحانات آن لاٸن ہو رہے ہیں جس کےلیے لاٸبریری میں تیاری کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ طلبا کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوٸے تربت پبلک لاٸبریری کو مقامی طلبا و طالبات کے لیے جلد از جلد کھول دیا جاٸے تاکہ طلبا اپنا تعلیم جاری رکھ سکیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.