حمید کی راہ ہماری ہے، جنگ ہماری جاری ہے

تحریر: ظریف رند

بلوچ قوم کی سرخیل طلبہ تنظیم ‘بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن’ اپنی نصف صدی سے زائد کی جدوجہد میں مختلف نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے ہزارہا انقلابی کیڈرز پیدا کرتے آئی ہے جو ہر دور میں قومی تنظیم کا سرخ پرچم بلند کرکے تاریکیوں میں مشعلیں جلاتے رہے ہیں جن کی روشنی دیس پردیس پھیلتی رہی ہے۔

استحصال و لوٹ کھسوٹ اور ظلم و جبر کے خلاف سینہ سپر رہنے والی انقلابی تنظیموں کی طاقت اور انہیں جبر کے خلاف اکسانے والی محرک قوت وہ عظیم نظریات ہیں جن پر کسی مخصوص گروہ، تنظیم یا دیس کا اجارہ نہیں ہوتا بلکہ یہ نظریات عالمگیر ہوتے ہیں اور جابر قوتوں کا گورکن بنتے ہیں۔ یہی انقلابی نظریات دنیا بھر کے محکوموں کے درمیان یکجہتی و ایکتا پیدا کرتے ہیں اور ایک دوسرے کا دکھ درد محسوس کرنے کے جذبے کے ساتھ ظالم و جابر قوتوں کے خلاف لڑنے کی شکتی جنم دیتے ہیں۔

محکوم بلوچ قوم کی انقلابی طلبہ تنظیم، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ان ہی عالمگیر انقلابی نظریات کی قوت سے سرشار ہے جو دنیا بھر میں ہونے والے ظلم و زیادتی کے خلاف محکوم عوام کو آپس میں جوڑنے کا جذبہ بیدار کرتی ہے اور ایک دوسرے کا درد محسوس کرنے کا عظیم جذبہ عطا کرتی ہے۔

بی ایس او کے سنہرے تاریخ کے اندر محکوموں کے ساتھ عالمگیر جڑت کی مختلف شواہد و داستانیں نقش ہیں جن میں سے ایک عظیم تاریخی پہلو شہید حمید بلوچ کے نام سے جانا جاتا ہے جن کی قربانی بلوچ قومی تاریخ کا فخریہ باب ہے۔

حمید بلوچ کا جنم دشت کنچتی ضلع کیچ میں ہوا جہاں سے انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور شعور کی آنکھ کھولتے ہی اپنے قومی تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کیساتھ ناطہ جوڑ لیا۔ بی ایس او کے پلیٹ فارم سے انہوں نے قومی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کیا اور عظیم انقلابی نظریات سے روشناس ہوئے۔

عطا شاد ڈگری کالج میں دورانِ تعلیم انہوں نے تربت زون کی اہم زمہ داریاں سنبھال لیں اور بہت جلد وہ بی ایس او کے اہم ترین کیڈرز میں شمار ہوئے۔ ان کی فکر وسیع اور انقلابی جذبات بلند سے بلند تر ہوتے گئے جو انہیں جدوجہد کی راہ میں ان عظیم قربانیوں کی جانب لے آئے جہاں زاتی زندگی، نمود و نمائش اور انفرادیت پسندی کی جگہ عظیم اجتماعی مفادات نے لے لیا اور وہ جبر کی ہر شکل اور سامراج کی ہر جگہ تسلط کے خلاف نفرت کرنے لگے اور اسے شکست دینے کیلئے کمربستہ ہو گئے۔

سنہ 1970 کی دہائی میں سلطنت عمان کے اندر سلطان سعید کی فسطائی بادشاہت کے خلاف مارکسسٹ لیننسٹ انقلابیوں کی ایک تحریک عمان کے ریجن ظفار میں پھوٹی جسے یمن کی مارکسسٹ لیننسٹ حکومت کی خاص تعاون حاصل تھی۔ تحریک کا مقصد عمان کو بادشاہت سے آزاد کرکے ایک سوشلسٹ حکومت قائم کرنا تھا۔ اور آگے بڑھ کر اسی تحریک کو پورے گلف سے جوڑ کر پورے گلف سے سامراج نواز بادشاہت کا خاتمہ کرکے ایک سوشلسٹ فیڈریشن تشکیل دینا تھا۔ اس تحریک کو ‘پاپولر فرنٹ فار دا لبریشن آف عمان’ کا نام دیا گیا جو بعد ازاں ‘پاپولر فرنٹ فار دا لبریشن آف عمان اینڈ آکوپائیڈ گلف’ قرار پایا۔

ظفاری انقلابیوں کی تحریک کو کچلنے کیلئے سامراجی قوتوں نے سلطنت عمان کی مدد کی جس میں برطانیہ، ہندوستان، ایران اور پاکستان شامل تھے۔ پاکستان نے عمان کو افرادی قوت فراہم کی جو کہ کرائے کے قاتل کے طور پر سلطان کی شاہی کرسی کا دفاع کرتے رہے اور تحریک کو کچلنے میں اپنے ہاتھ خون سے رنگتے رہے۔

اسی دوران 1979 کے اندر حمید کے دیار تربت میں پاکستان کے فوجی حاکم ضیاء الحق نے سلطان کیلئے بھرتیوں کا آغاز کیا اور بلوچ نوجوانوں کو چند روپیوں کے عوض کرائے کے قاتل کے طور پر بھرتی کرکے عمان بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ضیاء حکومت بہ یک وقت ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتی تھی۔ ایک تو یہ کہ بلوچ نوجوانوں کو روزگار کا جھانسہ دے کر بلوچستان سے نکالنا تاکہ بلوچ تحریک کمزور پڑ جائے اور دوسرا سلطنت عمان سے بھاری رقم بٹور کر انہیں یہاں سے کرائے کے قاتل فراہم کرنا۔ دونوں صورتوں میں ضیاء رجیم فائدے میں تھا۔

ضیاء کے مکروہ عزائم کے خلاف بی ایس او نے تحریک کا آغاز کیا اور ان بھرتیوں کو روکنے کی کوشش کی۔ بی ایس او محکوموں کی عالمگیر تحریک کے ساتھ انقلابی جڑت کا پیغام بھیجنے کے ساتھ ساتھ بلوچ نوجوانوں کو اپنی قومی تحریک کی جانب متوجہ کر رہی تھی جس کے لیے تنظیم نے بھرتیوں کو روکنے کیلئے منصوبہ تیار کیا۔

حمید بلوچ اس منصوبہ کے پیشرو بنے اور جس دن فوجی بھرتی کیلئے لوگ اکھٹا ہوئے تھے، اس دن حمید بلوچ نے عوامی بھیڑ میں گھس کر عمانی آفیسران کے سامنے فائرنگ کھول دی۔ فائرنگ سے عوامی بھیڑ منتشر ہو گیا جب کہ حمید بلوچ نے گرفتاری دے دی۔ ممکن تھا کہ حمید بلوچ اس بھیڑ سے آرام سے نکل جاتے مگر انہوں نے گرفتاری دے کر اپنا انقلابی پیغام عام کرنے کو بہتر جانا۔

حمید بلوچ کی گرفتاری کے بعد بلوچستان کی اعلیٰ عدلیہ میں ان کے خلاف ایک جھوٹے قتل کا مقدمہ چلایا گیا۔ حالانکہ حمید بلوچ کی فائرنگ سے کوئی بھی شخص قتل نہیں ہوا تھا اور نا ہی ان کا مقصد کسی کی جان لینا تھا۔ بلکہ بھگت سنگھ کے یہ نظریاتی ہمفکر ساتھی ظفاری انقلابیوں کو پیغام بھیجنا چاہتے تھے کہ بلوچ نوجوان ان کے قاتل نہیں بلکہ ان کے نظریاتی ساتھی ہیں جو دنیا بھر کی استعماری قوتوں کے خلاف سراپا جنگ ہیں اور محکوم اقوام اور محنت کش عوام کی آزادی کا علمبردار ہیں۔

بلوچستان کے ہائی کورٹ میں چلنے والے مقدمے میں حمید بلوچ پر کوئی قتل ثابت نہ ہو سکا مگر ضیاء الباطل کی فوجی آمریت بہرصورت حمید بلوچ کو سزا دینا چاہتی تھی تاکہ اپنے آقاؤں کو خوش کر سکے۔ اس لئے ضیاء نے ہائی کورٹ کے ججز پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا جس پر ججز کو احتجاجاً استعفیٰ بھی دینا پڑا۔ پھر حمید بلوچ کا کیس ملٹری کورٹ میں شفٹ کر دیا گیا اور ملٹری کورٹ کے ذریعے حمید بلوچ کو جھوٹے قتل کے الزام میں پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔

حمید بلوچ پختہ نظریات کے ہتھیار سے لیس ایک بہادر اور بے خوف جہدکار تھے۔ انہوں نے زرہ برابر بھی پشیمانی کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی ان کے ماتھے پر شکن کوٸی شکن آٸی۔ انہوں نے اپنے وصیت نامے میں واضح الفاظ میں لکھا کہ؛ “مجھے اس بات پر کوئی پشیمانی نہیں اور نہ ہی اس بات کا خیال ہے کہ مجھے مرنے سے زیادہ زندہ رہنا چاہیے تھا کیونکہ زندگی بلامقصد اور غلامی میں بسر کی جائے تو وہ لعنت ہے۔ میں نے ایک بڑے دشمن کو شکست دینے کی ٹھانی ہے میں اس میں ناکام نہیں ہوا ہوں میرے جدوجہد کے ساتھی، عزیز اور میرے قوم کے بچے میرے اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔”

حمید بلوچ اپنی زندگی کو بامقصد بنا چکے تھے اور اس عظیم مقصد کو پورا کرنے کیلئے وہ تختہ دار پر چڑھنے سے نہیں کترا رہے تھے۔ انہیں پختہ یقین تھا کہ ان کے عظیم مشن کو قوم کے انقلابی سپوت منزل تک ضرور پہنچا دیں گے۔

حمید بلوچ کو مچھ جیل کے پھانسی گھاٹ میں 11 جون 1981 کو پھانسی دیکر شہید کر دیا گیا۔ مگر ان کی عظیم قربانی نے بلوچ قوم کو ایک عظیم سربلندی عطا کر دی۔ اور ساتھ ہی ایک گہرا قرض چھوڑا ہے کیونکہ حمید شہید کا مشن اب بھی منزل تک پہنچنے کا منتظر ہے اور یہ زمہ داری آج کی نسل کے کاندھوں پر ہے کہ وہ استعماریت و سامراجیت کو شکست دے کر بلوچ وطن کے ساتھ دنیا بھر کو انسانوں کیلئے جنّت بنا دیں جہاں سے حاکم و محکوم، ظالم و مظلوم، جابر و مجبور اور آقا و غلام کا تصور مٹ جائے۔

ہم قوم کے عظیم انقلابی سپوت شہید حمید بلوچ کو ان کے چالیسویں یومِ شہادت پر سرخ سلام پیش کرتے ہیں اور جنم جنم حمید کی راہ پر چلنے و قربان ہونے کا عہد کرتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.