ہمیں چی گوویرا کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے

تحریر: حبیب کریم

نیل فاکنر ایک برطانوی مارکسسٹ، آرکیالوجسٹ، محقق اور تاریخ دان ہیں۔ بائیں بازو کی سیاست میں عملاً سرگرم رہے ہیں۔ اور بالخصوص تاریخِ عالَم پر بہترین اور مستند کتابوں کے مصنف ہیں۔ ڈاکٹر چی کے حوالے سے مذکورہ الفاظ نیل فاکنر کے ہی ہیں۔

ان کی ایک اہم اور انتہائی دلچسپ کتاب (اے ریڈیکل ھسٹری آف دی ورلڈ) 2018 میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں انہوں نے انسانی تاریخ کے آغاز یعنی عہد وحشت و بربریت سے لے کر زرعی انقلاب، قدیم شہنشائیتیں، سماجی طبقات کا وجود، یورپ میں جاگیردارانہ نظام، صنعتی، سائنسی اور بعد ازاں سوشلسٹ انقلابات، دونوں ورلڈ وارز، سرد جنگ اور اکیسویں صدی تک کے موجودہ جنگی و معاشی بحرانوں کا اس کتاب میں خوبصورتی سے احاطہ کیا ہے۔

مارکسسٹ نقطہ نظر کے ساتھ انسانی تاریخ کا تجزیہ کرتے ہوۓ ان کا کہنا ہے کہ انسانی تاریخ کو آگے کی جانب دھکیلتے رہنے میں تین اہم ترین عوامل کا کردار رہا ہے۔ یہ عوامل ہیں:

اول: ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی
(Technological Change)

دوٸم: سماجی طبقات کا ظہور
(The emergence of class societies)

سوٸم: اور سماج کی نچلی پَرتوں کا جدوجہد میں شرکت
(The struggle from below)

سو، اپنی کتاب میں جہاں کہیں فاکنر نے ترقی پسندانہ سماجی سیاسی انقلابات کا جائزہ لیا ہے، وہاں اِن تین عوامل کو بھی انہوں نے ملحوظِ خاطر رکھا ہے۔ کیوبن انقلاب بھی انہی میں شامل ہے۔

دسمبر 1956 میں 82 سر پھرے مسلّح انقلابیوں کا ایک گروہ کیوبا کے ساحل پر اس کے مقصد کے ساتھ پہنچا ہوا ہوتا ہے کہ کیوبا پر حکمرانی کرنے والے امریکہ کے حلیف، بدعنوان اور جابر ڈکٹیٹر بٹیسٹا کی آمریت کا تختہ اُلٹا جاۓ۔ کچھ عرصے بعد سِیرا میسترا کے پہاڑوں پر بڑی گوریلا کارروائی کرنے کے لیے ان میں سے محض 12 افراد بچ جاتے ہیں۔ فیدل کاسترو، بیٹا راؤل کاسترو، ارجنٹینا کے انقلابی ڈاکٹر ارنیستو چی گوویرا اور ان کے دیگر نو ساتھی۔ دو سال بعد 1958 تک ان میں صرف 200 مزید مسلح ممبران کا اضافہ ہوا۔ اور پھر اِس کے چھ ماہ بعد 1959 میں جب وہ کیوبا کے دارالحکومت ہَوانا میں داخل ہوۓ تو کل ملا کر یہ آٹھ سو مسلّح انقلابی تھے جنہوں نے بٹیسٹا کی فوج کو شکست دی اور سات ملین کی آبادی پر قابو پا لیا۔

روس میں سوشلسٹ انقلاب مزدوروں نے برپا کیا تھا۔ چین میں کسانوں نے۔ اور کیوبا میں اِن دونوں میں سے کسی نے بھی نہیں۔ کیوبن انقلاب چند مڈل کلاس دانشوروں کی تحریک تھی۔ فیدل کاسترو نے کئی بیانات لبرل اصلاحات کے حق میں دیے تھے۔ مئی 1959 میں انہوں نے کہا تھا:
”ہم نجّی سیکٹر کی سرمایہ کاری کے مخالف نہیں۔ ہم نجّی سرمایہ کاروں کے مفید ہونے، ان کے تجربے اور ان کے جذبے پر اعتماد رکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل کمپنیز اور سرمایہ کاروں کو وہی حقوق حاصل ہونگے جو قومی سرمایہ کاروں اور کمپنیز کو حاصل ہیں۔“

اس میں کیوبا کی تب کی خستہ حال معیشت کو سہارا دینے اور ملک کو آہستہ آہستہ عوامی فلاح و بہبود اور نیشنلائزیشن کی طرف لے جانے کی مجبوریاں بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتیں۔ کاسترو احتیاط کے ساتھ آگے بڑھے تھے اور بعد ازاں روس کے ساتھ براہ راست تعلق قائم کرتے ہوۓ انہوں نے کیوبن انقلاب کو ”سوشلسٹ انقلاب“ قرار دیا تھا۔ جب کہ فاکنر کے نزدیک یہ تحریک اپنے جوہر میں ”سوشلسٹ انقلاب“ نہیں تھی۔ مڈل کلاس آئیڈئیلسٹ دانشوروں کی اس تحریک میں نہ شہری مزدوروں نے شرکت کی تھی اور نا ہی دیہی کسانوں نے براہ راست اس میں حصہ لیا تھا۔ ان کے الفاظ میں:

“The revolution was almost entirely the work of middle-class idealists and a small number of peasant-farmers they succeeded in recruiting along the way. The Cuban Revolution was not, therefore, an example of ‘the self-emancipation of the working class.”

مزید، چی گوویرا نے اس کیوبن تحریک کو انتہائی جنرلائز کر دیا تھا۔ ان کی نظر میں یہی گوریلا وارفئیر دنیا میں کہیں بھی کامیابی سے لڑی جا سکتی تھی۔ چی نے اس تناظر میں تین اہم نکات پیش کیے تھے:

اول: معروف گوریلا مزاحمت کار ریگولر آرمیز کو شکست دے سکتے ہیں۔
دوٸم: تیسری دنیا کے ممالک میں دیہی اور مضافاتی علاقے جدوجہد کے لیے فطری سٹریٹجک پوائنٹس ہیں۔
سوٸم: انقلابیوں کو موزوں حالات کا انتظار کرنے کے بجاۓ مسلّح جدوجہد کے لیے خود مناسب حالات پیدا کرنے چاہئیں۔

لہذا، ڈاکٹر چی کے مطابق چھوٹے چھوٹے گروہوں میں منظم مسلّح دستے افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ میں سامراجی طاقتوں کو بخوبی شکست دے سکتے ہیں۔ ڈاکٹر چی انفرادی طور پر فکر و عمل دونوں کے پکّے تھے۔ سامراجیت کے خلاف ہر محاذ پر جنگ ان کا ایک اوّلین مقصد تھا۔ تبھی انہوں نے ایسی حکمت عملی ترتیب دینے کا سوچا۔ ساتھ ہی وہ جلد کیوبا میں سوویت یونین کی پالیسیز پر اپنا اعتماد کھو بیٹھے جو کیوبن حکومت نے اختیار کیے تھے۔ عوام کی نظروں سے چی غائب ہو گئے۔ پہلے خاموشی سے 1965 میں کانگو گئے۔ اور پھر 1966 میں اپنے مذکورہ انقلابی نکات اور نظریے کو عملی جامہ پہنانے بولیویا پہنچ گئے۔

لیکن محض انقلابی جذبات اور معروضی حالات میں فرق ہوتا ہے۔ صرف قوتِ ارادی کے بل بوتے پر انقلابات لانا ممکن نہیں۔ مربوط تنظیم کاری، سماج کے محکوم طبقات کے ساتھ مکمل عملی جُڑت اور سماج میں اجتماعی شعور کو ابھارنا انقلابات کی کامیابی کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں۔ اسی لیے چی کو کانگو میں وہاں کے جاگیرداروں کی بدعنوانیوں، سماجی قوتوں کی دھڑے بازیوں اور اپنی ہی ناساز صحت کی وجہ سے کامیابی نہیں مل سکی۔ اور بولیویا میں اس سے بھی بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ پچاس لوگوں کا یہ مسلّح گوریلا دستہ ایک پہاڑی علاقے میں جا پھنسا۔ اور 1967 میں ان میں سے بچ جانے والے چند مزاحمت کار اٹھارہ سو بولیوین سپاہیوں اور امریکی جاسوسوں کے نرغے میں آگئے۔

چی کو گرفتار کر کے مار دیا گیا۔ اس کے باوجود چی گوویرا پوری دنیا میں سب سے جانا پہچانا چہرہ بن گیا۔ مزاحمت اور جدوجہد کی شکل اختیار کر گیا۔ چی گوویرا جہاں محکوموں کے جنگی محاذوں پر مزاحمت کا استعارہ اور جوش و ولولے کا پُھوٹتا چشمہ بنا۔ وہیں گلیوں، محلّوں، بازاروں، چوراہوں، تعلیمی اداروں، کارخانوں، گاڑیوں، موٹر سائیکلوں، رکشوں پر چسپاں اپنے سٹیکرز میں فاتحانہ مسکراہٹ لیے عوام کے واسطے انقلابی جمالیات کا روپ بھی دھار گیا۔ مگر قطع نظر ان انقلابی اور مزاحمتی پہلوؤں کے، ڈاکٹر چی کے چند آئیڈئیلسٹ فیصلوں پر مفکرین اور تاریخ دانوں نے تنقید بھی کی ہے۔

مؤرخین کی جانب سے ایسی مثبت اور مدلل تنقید ہمیں اپنے ذہنوں میں شخصی بت بنانے کے بجاۓ دلیل اور نظریات کی جانب مائل کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ شخصیت پرستی اور جذباتیت سے چھٹکارا دلا دیتی ہیں۔ اور تاریخ میں کسی شخصیت کو تنقید سے استثنی حاصل نہیں رہی ہے۔ اسی لیے نیل فاکنر چی گوویرا کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ یہ سمجھانا بھی چاہتے ہیں کہ:

“ہمیں چی گوویرا کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیےـ”

Leave a Reply

Your email address will not be published.