ایک اور حسیبہ سائرہ کی شکل میں

تحریر: سراج بلوچ

بہن بھائی کا رشتہ مخصوص اور نہایت ہی خوبصورت رشتہ ہوتا ہے۔ یہ ایک انمول رشتہ ہے جس کا کوئی مول نہیں جہاں تک تو بڑے بھائی کو باپ کا درجہ بھی دیا جاتا ہے۔
اس رشتے کا آغاز تو پیدائش کے ساتھ ہی ہوتا ہے اور پھر اس کی ڈوریں سانس ہی کے ساتھ ٹوٹ جاتے ہیں۔
اس رشتے سے جڑے احساسات جذبات کو ہم اپنے عام روزمرہ زندگی میں دیکھ لیتے ہیں لیکن ایک بدبخت بہن کے لیے یہ خطہ، یہ ریاست کسی ڈائن سے کم نہیں ہے جو ان کے ارمان، ان کا سرمایہ، ان کے جوان بھائیوں کو ان سے الگ کر لیتا ہے۔

ہاں بھئی ڈائن ہی تو ہے جو بہنوں کی بھائیوں کو نگل جاتا ہے۔ پھر ہم بھی یہ درد بھری لمحات اور یہ قیامت اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ ہم حسیبہ کو بھی دیکھ چکے ہیں اس کے آنسوؤں سے منسلک اپنے بہتے آنسو بھی دیکھ چکے ہیں۔ اب جب حسیبہ کا درد ختم ہو چکا تھا کہ ایک اور بدبخت بہن سائرہ کی صورت میں ہمارے سامنے ابھرتی ہے جب وہ پہلی بار 8 جون کو مسنگ پرسنز کیمپ پہنچتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں اک ننھی سی جان معصوم اور بے بس چہرے کے ساتھ سینکڑوں کے بھیڑ میں اپنے دونوں ہاتھوں میں اپنے دونوں بھائیوں کی تصویریں لیے اشک بہا رہی ہے۔

آصف جس کا وہ ہم شیرہ ہے اس کے ساتھ تو اس کا خون کا رشتہ ہے جبکہ رشید کزن ہوتے ہوۓ بھی بقول سائرہ کے وہ تو اس کے لئے بھائیوں سے بھی بڑھ کر ہے رشید تو اس کا استاد ہے اس کا ہم خیال ہے۔

اگر ہم سائرہ کی ماضی کو دیکھیں تو سائر ایک خوش گپت اور چنچل لڑکی تھی اپنی بھائیوں کا پری ان کی لاڈلی ان کا ناز ہر چیز تو سائرہ ہے۔

سائرہ تو بھی سائرہ ہے اپنے بھائیوں سے کس قدر محبت کرتی ہے یہ تو کوئی مظلوم بہن ہی اندازہ لگا سکتی ہے۔سائرہ تو ایک خوبصورت پھول ہے جس کو توانائی دینے والا سورج اس کے بھائی ہیں مگر آج جب مدتوں سے اس کا سورج غروب ہو چکا ہے تو سائرہ بھی منجھا ہوا ہے اکیلی چھپ چھپ کے بھائیوں کی یادوں میں اشک بہا رہی ہے۔

سائرہ کے آنسو تو پہاڑوں کے دامن سے بہتے پانی کی طرح ہیں جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے البتہ پہاڑوں سے بہتے پانی تو بہار کی نشانی ہیں روح کو تسکین پہنچانے کا عمل ہے۔ لیکن اس معصوم بہن کے آنسو اپنے بھائیوں کی غم میں کربلا کی منظر کشی کر رہی ہیں۔ ہاں کربلا کا میدان جو بلوچستان ہے اب۔۔

سائرہ تو شیرازال بہن ہے ، ہمت والی لڑکی ہے اس کی پاؤں تلے تو زمین نہیں لیکن سائرہ پھر بھی کھڑی ہونے کی جستجو میں لگی ہے، وہ اپنے گھر میں اپنے بوڑھے ماں باپ کو دلاسہ دینے والی راہشون ہے۔ ہاں بھائی راہشون جو ایک روایتی معاشرے سے تعلق رکھنے کے باوجود اپنے ماں باپ اور عزیزوں کو اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ چھپ بیٹھنے والوں میں سے نہیں ہے، وہ تو اپنے بھائیوں کو پاتال سے بھی ڈھونڈ کر لائے گی، سائرہ تو بھائیوں کو زندگی دینے کا نام ہے۔

سائرہ اور اس جیسی بیٹیاں تو خان قلات کی بیٹیاں ہیں وہی خان قلات جو بانی پاکستان کی بہن مادر ملت فاطمہ جناح کو بلوچی رسم و رواج کے مطابق عزت بخشتے ہوئے سونے، چاندی سے تول لیتے ہیں۔
کیا آج بانی پاکستان محمد علی جناح کے پیروکاروں کا فرض نہیں بنتا کہ وہ سائرہ جیسے مظلوم بیٹیوں کی مانگ پوری کریں اور سائرہ بھی تو ان سے کیا مانگ رہی ہے ؟
کیا وہ ان سے پنج دریا کا پانی مانگ رہی ہے ؟
یا سیندک، ریکوڈک و سوئی گیس کے ذخائر مانگ رہی ہے؟ جس کی وہ مالک بھی ہے۔
نہ ہی سائرہ گوادر کی بہتے آنسو دیکھا رہی ہے وہ آنسو جن کا ہمدرد ہے وہ۔۔
سائرہ تو اپنی خوشی ، اپنی بھائی مانگ رہی ہے اپنے گھر کے واحد کفیل مانگ رہی ہے۔
کیا یہ ریاست اس نہتی بلوچ بیٹی کیلئے اتنا بھی نہیں کر سکتی ؟
اگر نہیں کر سکتی تو یہ ظلم ہے !

یہ ظلم خان قلات اپنے دوست قائد اعظم محمد علی جناح کو دکھائے گا۔
سائرہ کے موتی جیسے آنسو مادر ملت فاطمہ جناح کو دکھائے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.