عید ابراھیمی

تحریر: عمران بلوچ

مسئلہ یہ ہے کہ جو گولیاں استعمال ہوئی ہیں وہ اسٹیل کی تھیں اور اسپئیرل تھیں جو جسم میں پیوست ہوکر ایک دھماکہ کرتی ہیں۔ جہاں پر پیوست ہوکہ یہ دھماکہ کرتی ہیں آس پاس کے تمام شریانوں کو بلکل کاٹ ڈالتی ہیں خون کے 22 پیکٹ لگنے کے باوجود بھی ہم مجبور ہوگئے ہیں ہم آپ کے بندے کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن خدا کی مرضی شاید کہ اسی طرح ہے۔۔۔

میں پینٹ پہنے اس شخص کو غور سے دیکھ رہا تھا جب اس نے خدا کو درمیان میں لا کھڑا کردیا تو مجھے لگا خدا بھی ریاست کی مرضی سے ہی چلتا ہے ہم سے جو بھی کام جب بھی خراب ہوجائے یا کوئی بچھڑ جائے تو اس کا ذمہ دار خدا ہی ٹھہرتا ہے۔ مانو خدا اور سوٹ بوٹ میں کھڑا شخص دونوں کے درمیاں ایک گٹھ جوڑ تھی۔ تسلی دیتے ہوئے کہنے لگا ہمت مت ہارنا خدا غفور رحیم ہے۔ میں نے اس کی آنکھوں میں غور سے دیکھا جس کی انتھک گہرائیوں میں مجھے صرف اور صرف دھوکہ جھوٹ فریب ہی نظر آرہا تھا۔۔۔ اور وہ اپنی اس جھوٹی دوکانداری پاک پوِتر خدا کی جھولی میں ڈالے جار رہا تھا۔

میرے بازو میں بھائی کے دوست اور محلے کے کچھ میرے ہم عمر دوست کھڑے تھے۔ ہم میں سے ہر کوئی کبھی ریاست کی تو کبھی باغیوں کی زبانی دھجیاں اڑاتے جارہے تھے(کیونکہ سچ آج کی طرح اس وقت بھی ہم پر عیاں نہیں تھی) ہمیں مجرم اور ملزم میں کوئی فرق نہیں تھا۔ جنگ انہی کے درمیاں تھی ہم غریب جو بڑی مشکل سے غربت کی کھینچی ہوئی لکیر سے تھوڑا سے اوپر زندگی بسر کر رہے تھے۔

ماں کے رخسار پر خون، بھائیوں کے سینے سے ٹپکتا خون، ان کی بیواٶں کے بکھرے زلف جن کا دوپٹہ کبھی سر سے سرکتا ہی نہیں تھا آج وہ بغیر دوپٹے کی اپنے قسمت اور ریاست کی مرضی کے خدا سے آہ و بکا کر رہی تھیں۔ معصوم تین بچے جن کو ماں باپ بہن بھائی نانا نانی دادا دادی کی تمیز نہیں تھی ان کے سر سے ٹھنڈے چھاٶں کو چھین کر طاقتور بڑے مزے سے ریاست کے ساتھ پیر پر پیر رکھ کر شیمپیئن کی بوتل چیس کر کے سب کی سسکیوں پر قہقہ زن تھے۔

مجبور باپ صبح کی اذان پر اپنی ہتھیلیاں گھٹنوں پر رکھ کر خدا کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھا تھا جس کی مرضی سے اس کو لگائے گئے تیار درخت اکھاڑ پھینک دیئے گئے تھے۔۔۔

گلی کے نکڑ پہ کھڑا میں سوچ رہا تھا کل قربانی کی عید ہے۔ میرے ماں باپ نے اتنی بڑی قربانی دی ہے لگتا یہی ہے ابراہیم سے افضل تو میرے والدین ہیں کیونکہ اسماعیل کی جگہ تو جنت سے ایک دنبے نے لی تھی لیکن میرے ماں باپ نے جن ارمانوں سے اپنے بچے تیار کیے تھے اس سے بڑھ کر خدا کے لیے کوئی قربانی کر بھی نہیں سکتا۔
لیکن یہ قربانی خدا نے زبردستی کرائی تھی کسی کو کوئی شوق نہیں اپنے جواں سال بیٹوں کی قربانی کرنے کا جس طرح ابراہیم خدا کے سامنے مجبور ہوا تھا اسی طرح میرے والدین نے بھی صبر کا جام پی لیا کہ اب اس قربانی کے بعد قیامت بھی بہتر رہے گی اور یہ دنیا بھی لیکن یقین جانیں 9 سال ہونے کو ہیں آج بھی انہیں کچھ بہتر نظر نہیں آ رہا۔۔۔

وہ معصوم بچے بھی کچھ سمجھ بوجھ کے قابل ہوچکے ہیں اب وہ اس سوال کا جواب بھی ڈھونڈ رہے ہیں ریاست یا مزاحمتکار جنہوں نے بھی ہم سے ہمارا سایہ چھینا ہے بس ہمارے چھاٶں کا ہمیں قصور بتایا جائے دونوں اطراف کے پاٶں ٹھنڈے پڑ جائینگے دونوں کے لیے بددعائیں نکل رہی ہیں ہر عید پر جب نماز ہوتی ہے اس کے بعد دونوں اطراف کے لیے ماں اور بچے بد دعائیں ہی دیتے ہیں۔

کرائے کے قاتل 500 روپے پر ھاٸر کرکے انہیں بندوقیں تھما کر کسی خاندان کو ڈرا تو سکتے ہو لیکن اس کے من کو تبدیل نہیں کرسکتے۔ ریاست ہو یا باغی محبت ختم کرا کے نفرت کو پال کر تم کس دیش کے خواب دیکھاتے ہو وہ خواب جس کے لیے ہزاروں لاکھوں ابراہیم اپنے اسماعیل کو ذبح کرواتے جائیں گے تو کیا خوف کے اندر پنپ کر تم سے بھی خطرناک وحشی درندے کی پرورش نہیں ہوں گے کیونکہ نفرت صرف اور صرف وحشی درندہ ہی جنم دے سکتا۔ پر تمھاری زنجیریں جنہیں تم رنگ کر کے پہناتے ہو کہیں تمھارے گلے کی طوق نہ بن جائیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.