صحافتی پیشے سے مایوسیاں

تحریر: نذر بلوچ قلندرانی

کہنے کو تو صحافت ایک عظیم پیشہ ہے اور صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون بھی کہا جاتا ہے۔ جب صحافت ایک عظیم پیشہ ہے تو صحافی دوست اس پیشے سے مایوس ہو کر انہیں کیوں ترک کرنے پر مجبور ہیں؟ آپ اکثر دیکھتے ہونگے کہ اچانک ایک میڈیا چینل یا اخبار کے مالک اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ معاشی تنگدستی کے باعث ہم ادارہ مزید نہیں چلا سکتے اور انچارج نمائندگان صحافیوں کی سوالوں کے جوابات دیئے بغیر چینل چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے اور اکثر صحافی دوست اس پیشے کو ترک کرنے کی وجہ ذاتی وجوہات بتاتے ہیں حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔

اس بات کو بھی ہم نظر انداز نہیں کرسکتے کہ آج کے صحافی، پریس کلبز، صحافتی تنظیمیں صرف اپنے مفادات تک محدود ہیں۔ بدقسمتی سے آج ہمارا پورا میڈیا انڈسٹری اس کام میں لگا ہوا ہے۔
شعور کا فقدان یا مفادات کی مجبوریاں یہاں تو بس لوگ غلط صحیح کو چھوڑ کر جی حضوری پر جھکے ہوئے ہیں۔ لیکن جو اپنے مفادات سے ہٹ کر کام کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ بلآخر اپنے صحافت کو ترک کرنے پر مجبور کر دیئے جاتے ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ جب چینلز مالکان کو سرکاری سطح پر پذیرائی نہیں ملتی تو وہ اپنے نمائندگان کو سیکورٹی، بزنس کارڈ اور لوگو کے نام پر لوٹنا شروع کر دیتے ہیں۔

ہمارے یہاں اکثر صحافی دوست فری لانس جرنلسٹ یعنی بغیر ڈگری کے کام کرتے ہیں۔ اُن میں سے ایک میں بھی ہوں۔ میرا خیال ہے کہ کسی بھی شعبے میں ڈگری اہمیت نہیں رکھتا جبکہ تجربہ اور قابلیت ہی سب کچھ ہوتا اور یہی رائے ہمارے ڈگری حاصل کرنے والے صحافیوں، سینئر اینکر پرسنز اور چینل مالکان کا بھی ہے۔
ابتدا میں جب ایک شخص اسی پیشے سے وابستہ ہوتا ہے تو وہ چینل مالک کے سکیورٹی فیس یہ سوچ کر خوشی سے ادا کرتا ہے کہ چلو جو بھی ہوں میں صحافی تو بن جاؤں گا، پر بعد میں انہیں کئی مشکلات درپیش ہوتے ہیں۔

اس بات کو یاد رکھا جائے کہ ہر صحافی کے پیچھے ایک خاندان ہوتا ہے اور وہ ان کو شاید صحافی نہیں سمجھتے وہ ان کو اپنے گھر کی والی وارث اور گھر کا سرپرست سمجھتے ہیں، جب حق کی راستہ اختیار کرکے مذکورہ صحافی کو سنگین دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو سب سے پہلے ان کے خاندان انہیں اس پیشے کو ترک کرنے پر مجبور کرتے ہیں یہ سوچ کر کہ کہیں اس راستے پر چل کر انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے۔
اس بات کو لے کر مذکورہ صحافی کے لواحقین شاید اذیت میں مبتلا رہتے ہیں۔ ایک طرف سنگین دھمکیاں تو دوسری طرف معاشی تنگدستی جو ہر عام آدمی کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ مقامی انتظامیہ اور حلقے سے منتخب نمائندہ جو صرف ایسے صحافیوں کو نوازتا ہے جو عوامی کوریج کو ترک کرکے صرف انکے چمچہ گیری میں ماہر ہوں یا پھر ان کے پارٹی میں سے ہوں۔ یقیناً یہاں ایک سچا اور ایماندار صحافی کو کچھ نہیں ملتا سوائے دھمکیوں کے۔۔ پھر وہ صحافتی خدمات کو سرانجام نہیں دے پاتا۔ جس کے باعث سینکڑوں صحافی اس پیشے سے مایوس ہوکر صحافت کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.