طالب، خمینی اور خواتین

تحریر: حبیب کریم

طالب ترجمانوں کی طرف سے میڈیا میں یہ دہرایا جا رہا ہے کہ انہوں نے عام معافی کا اعلان کر دیا ہے۔ اور شرعی حدود کے اندر رہتے ہوۓ اظہارِ آزادیِ راۓ، انسانی حقوق اور بالخصوص خواتین کے حقوق کا مکمل تحفظ کیا جاۓ گا۔ ایسے بیانات کے ذریعے طالب مغربی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے سامنے اپنا معتدل چہرہ پیش کر کے ان کی حمایت کے حصول کے لیے پَر تول رہے ہیں۔ ان کے ایسے بیانات کے ذریعے پاکستان اور بیرون دنیا کے بعض حلقوں میں یہ تاثر واقعتاً پھیل بھی رہا ہے کہ طالب اب تبدیل ہو چکے ہیں اور ان کے طرزِ حکومت میں اعتدال آگیا ہے۔

لیکن کچھ اہم سوالات ہیں جو شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آرہے ہیں__ کہ کیا بیس سال قبل کی شریعت کچھ اور تھی اور اب کچھ اور ہے؟ قرآن و حدیث کے جن احکامات کا بیس پچیس سال قبل حوالہ دے کر خواتین کے ساتھ ناروا سلوک کو جائز قرار دیا جاتا تھا، اب وہ احکامات تبدیل ہو چکے ہیں؟ حدود کے قوانین سے متعلق قرآنی آیات کی تفہیم دو دہائیوں میں بدل چکی ہے؟ اگر ہاں تو نئی تفہیم کیا ہے اور گزشتہ دور میں سابقہ تشریح پر عمل پیرا ہوتے ہوۓ جو کیا گیا اس کو جرم تسلیم کرتے ہیں؟ یا پھر طالب میں اعتدال محض داڑھی، مونچھوں، پائنچے، پاجامے کی لمبائی چوڑائی پر چھوٹ اور کیمرے، تصاویر کی حلّت وغیرہ کی حد تک آیا ہے؟ مگر یہ بھی محض دھوکہ ہے۔

دسمبر 1978 میں جلاوطنی سے ایران واپسی سے قبل خمینی نے مغربی میڈیا میں بالکل اسی طرح کے بیانات دیتے ہوۓ کہا تھا کہ ”خواتین جیسا لباس چاہیں، شرعی حدود کے اندر رہتے ہوۓ زیب تن کرنے پر آزاد ہونگی۔ ھم خواتین کو ہر قسم کی آزادی دیں گے۔ انفرادی آزادی اور اخلاقیاتی اصولوں کے حوالے سے مرد و عورت میں کوئی تفریق نہیں ہوگی۔“ خمینی کے ان اعتدال پسندانہ بیانات کا مقصد مغربی مبصرین کے ساتھ ساتھ شاہِ ایران کے خلاف متحرک ان ایرانی لبرلز کی حمایت حاصل کرنی تھی جن میں خواتین کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔

اور ان بیانات کی وجہ سے خمینی نہ صرف مغربی میڈیا میں ایک معتدل چہرہ بنانے میں کافی حد تک کامیاب ہوا، بلکہ ایران میں شاہ کے خلاف مزاحم کمیونسٹس اور لبرلز کو بھی اپنی طرف مائل کرنے میں بھی اسے کامیابی ملی۔ ایران کی کمیونسٹ پارٹی تودے نے کھل کر خمینی کی حمایت کا اعلان کیا۔ حتی کہ مغرب میں مشل فوکو جیسے دانشور بھی خمینی کے اِس جال میں آگیا تھا۔ فوکو بھی سمجھنے لگا تھا کہ شاہ کے خلاف یہ مزاحمت عوامی انقلاب ہے، یہ انقلاب لوگوں کو آزادی کی ضمانت دے گا، اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا جاۓ گا اور ایران سے پرے مشرق وسطی اور مغرب میں بھی اس کے مثبت اثرات پہونچیں گے۔ جبکہ کٹھ ملائیت کی حقیقت سے واقف کچھ ایرانی دانشور اور فیمینسٹس مغرب کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے تھے کہ مغربی میڈیا اور دانشوران جس کو عوامی انقلاب اور ایران کی بیماری کا علاج سمجھ رہے ہیں، یہ علاج اس بیماری سے بھی زیادہ خطرناک ہوگا۔
A cure that is perhaps worse than the disease.

ایک فروری 1979 کو پانچ ملین ملّا، لبرلز، کمیونسٹس ایرانی ملک کے دارالحکومت تہران میں خمینی کے استقبال کے لیے جمع ہو چکے تھے۔ جونہی خمینی پہونچا اور فروری کے آخر تک اسلامی انقلابی کونسل کا قیام ہوا۔ زمامِ اقتدار ملّاؤں کے ہاتھ میں آیا تو خمینی اور اس کی اعتدال پسندی کی حقیقت نے سب کی نظروں کو خیرہ کر دیا۔

بمشکل ایک ماہ گزرا تھا کہ تین مارچ کو خمینی نے اعلان کر دیا کہ کوئی خاتون جج نہیں بن سکتی۔ اور بعد ازاں 2003 میں نوبیل انعام پانے والی خاتون شیریں عبادی جو تب جج تھیں، خمینی نے ان کو عہدے سے فارغ کر دیا۔ چار مارچ کو اعلان ہوا کہ طلاق کا اختیار صرف مرد کے پاس ہوگا۔ آٹھ مارچ کو خواتین کے لیے پردہ لازمی قرار دیا گیا۔ پردے سے انکار پر سرعام 74 کوڑے لگانے کا قانون لاگو کیا گیا۔ نو مارچ کو اعلان ہوا کہ خواتین کھیل کی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے پائیں گی۔ فنون لطیفہ کے دشمن کٹھ ملائیت نے خواتین گلوکاروں پر پابندی لگا دی۔ اور ظلم، جبر، تشدد، قتال کی وہ داستانیں خمینی کی ”اعتدال پسندانہ“ طرزِ حکومت نے بدنام زمانہ ایرانی جیلوں میں آگے جا کر رقم کیں کہ انسانیت شرما جاۓ۔

جو دوغلا چہرہ خمینی اور اس کے ہمنواؤں نے پچاس سال قبل دنیا کے سامنے پیش کر کے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ آج طالب اور ان کے حلیف دنیا کو بالکل اسی طرح باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ بدل چکے ہیں، اور آج کا طالب اعتدال پسند ہے۔ مگر اس سے بڑا جھوٹ، فراڈ اور سراب ممکن نہیں ہے۔

کابل کی دیواروں پر خواتین کے چہروں پر طالب کی جانب سے لگائی جانے والی سیاہی دراصل ان کے اپنے سیاہ و ہیبتناک چہرے کی تصویر کشی کر رہی ہے۔ کابل کے فنکاروں کے ٹوٹے ہوۓ آلاتِ موسیقی مستقبلِ قریب میں کابل کی ویرانی اور وحشت کی گواہی دے رہے ہیں۔ صحافیوں، شاعروں اور دانشوروں سے خالی ہوتا کابل علم و دانش، دلیل اور آزادی سے محروم کابل کی تاریکی اور کٹھ ملّائی راج کا نقارہ بجا رہا ہے۔

سو، زندگی میں امن واحد شئے نہیں۔ امن محض بندوقوں کی عارضی خاموشی کا نام بھی نہیں ہے۔ آزادی وسیع مفاہیم رکھتی ہے۔ طالب اور امن، طالب اور آزادی انتہائی متضاد حقائق ہیں۔ خمینی طالب ہے اور طالب خمینی۔ اور دونوں بدترین غلامی اور گھٹن کی علامات۔ تمام انسانیت اور بالخصوص خواتین کے دشمن۔ خمینی، خامنہ ای اور طالب کے فرقے اگرچہ مختلف ہے مگر دونوں کی خصلتوں اور عزائم میں فرق نہیں ہے۔ دونوں سراب ہیں۔ دونوں غلامی۔ تاریکی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.