بی ایس او؛ نیشنل اسکول کا دوسرا روز، سیاسی اصطلاحات، بین الاقوامی و ملکی تناظر اور تنظیم کے موضوعات پر کامیاب سیشنز منعقد ہوئے۔

رپورٹ: مرکزی ترجمان، بی ایس او

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے دو روزہ کیڈر بیسڈ تربیتی اسکول کے دوسرے روز تین سیشنز منعقد ہوئے، جن میں سیاسی اصطلاحات، ملکی و بین الاقوامی تناظر اور تنظیم کے موضوعات پر تفصیلی بحث منعقد رہی۔ سیشنز کے دوران ساتھیوں نے انقلابی گیت و نظم پڑھ کر اسکول کے انقلابی ثقافت میں شایان شان اضافہ کیا۔

نیشنل سکول کے دوسرے روز کا پہلا سیشن اور مجموعی طور پر تیسرا سیشن سیاسی اصطلاحات پر تھا، جس پر لیڈآف رکن مرکزی کمیٹی کامریڈ فرید بلوچ نے دی اور سیشن کو چیئر رکن مرکزی کمیٹی شمس بلوچ نے کیا۔

سیاسی اصطلاحات کے سیشن میں سماجی، معاشی و سیاسی اصطلاحات کو تفصیل سے ڈسکس کیا گیا۔ کیڈرز کو سیاسی اصطلاحات کا پس منظر اور ان کے استعمال کے درست معنوں کی جانکاری دی گئی۔

سیشن کو کھولتے ہوئے شمس بلوچ نے لبرلزم پر تفصیلی بحث رکھی، لبرلزم کی تاریخی پس منظر پر بات رکھی گئ اور اسکے ساتھ نیو لبرلزم، نیو نیو لبرلزم اور سیکیولزم پر مفصل بحث رکھی گئی۔

وضاحت کیا گیا کہ لبرلزم کا جنم اٹھارویں اور انیسویں صدی کی معاشی صورتحال کے تناظر میں ہوا جس میں اوپن مارکیٹ، مقابلہ بازی اور انفرادی آزادی کے بورژوا طرز پیداوار کو سیاسی ڈسکورس میں ڈھالا گیا۔ اس کے ساتھ لبرلزم کی مختلف اشکال پر بھی بات کی گئی اور اس کی سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ پنپنے اور سرمایہ داری کے معاشی مفادات کو سماجی بیانیہ دینے کیلئے استعمال کو واضح کیا گیا۔

فرید مینگل نے لیڈآف دیتے ہوئے سیشن میں کیپٹلزم، سامراج، فاشزم، کالونیلزم، نیو کالونیلزم، پوسٹ ماڈرنزم، پدرشاہی، فیمینزم اور نیشنلزم جیسے اہم اصطلاحات کا تفصیل سے جائزہ پیش کیا اور وضاحت کی کہ کیسے تاریخی ارتقاء کے مختلف مراحل میں سماجی و معاشی عوامل نے مختلف ڈھانچوں کی بنیاد رکھی اور تحاریک کے مخلتف نام پڑ گئے۔

اسی طرح کیپٹلزم کے بنیادی تصورات اور اس کے اگلے مرحلے یعنی سامراجیت پر بات رکھی جس میں سرمایہ داری کے جاگیردارانہ نظام سے ابھرنے کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ ہر نیا نظام پرانے نظام کے بطن سے پیدا ہوتا ہے، جبکہ پرانا نظام پیداواری قوتوں کو مذید ترقی دینے میں ناکام ہو تو اسے لامحالہ نئے نظام کی طرف بڑھنا ہوتا ہے، ایسے میں ایک نظام سے دوسرے تک کا سفر مختلف واقعات سے ہوتا ہوا نئی صورت اختیار کرتا ہے۔
سرمایہ داری کے ظہور میں آنے کا عمل ایک لمبے ارتقائی عمل سے گزرا جس میں کئی انقلابات بھی شامل ہیں جس میں امریکی انقلاب اور فرانسیسی انقلاب قابل ذکر واقعات ہیں جنہوں نے بادشاہت، چرچ اور جاگیرداری کے اتحاد اور ان کے اقتدار پر کاری ضرب لگاتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کیلئے راہیں ہموار کیں۔ سیشن میں سرمایہ داری کے ارتقاء اور اس کی سامراجی شکل میں تبدیل ہونے کے عمل پر بھی روشنی ڈالی گئی اور کالونیلزم کے ادوار کو بھی تفصیلی صورت میں بحث کیا گیا کہ کیسے سرمائے کے حصول کیلئے دیگر اقوام کو محکوم بنایا گیا اور ان کے وسائل کو تاحال لوٹا جارہا ہے۔

سیاسی اصطلاحات کے سیشن میں نیشنلزم کے تاریخی ارتقاء اور اس کی مختلف اشکال پر بات کی گئی، جس میں انیسویں صدی میں قومی ریاستوں کے بننے اور قومی بنیادوں پر معیشت اور سیاست کے استوار ہونے کے عمل پر گفتگو کرتے ہوئے بیسویں صدی میں محکوم قوموں کی قوم پرستانہ سیاست اور قومی آزادی کی جدوجہد اور انقلابات پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی۔

اس کے علاوہ فیمینزم کی اصطلاح کو بھی بیان کیا گیا اور اس کے مختلف مراحل کے تاریخی پس منظر کو زیر بحث لایا گیا اور عورتوں کی جدوجہد اور چار بڑے ادوار کے بارے میں کیڈرز کو آگاہ کیا گیا۔

لیڈ آف کے بعد سوالات کا موقع فراہم کیا گیا جس میں کیڈرز کی طرف سے اہم سوالات رکھے گئے۔ اور بعد ازاں ذکریہ بلوچ نے کنٹریبیوشن کرتے ہوئے گلوبلائیزیشن پر تفصیلی بات رکھی۔
سوالات کی روشنی میں فرید مینگل نے سیشن کا سم اپ کیا۔

نیشنل سکول کے دوسرے دن کا دوسرا سیشن جبکہ مجموعی طور پر چھوتا سیشن ملکی و بین الاقوامی تناظر پر تھا جس پر لیڈ آف چیئرمین ظریف رند نے دی جبکہ سیشن کو چیئر سینئر جوائنٹ سیکریٹری سنگت جیئند بلوچ نے کیا۔

تناظر کے سیشن میں ظریف رند نے عالمی سیاسی منظرنامے کا مفصل تجزیہ پیش کیا اور موجودہ سیاسی و معاشی حالات کا تاریخی پس منظر بیان کیا۔ انہوں نے سوویت یونین کے انہدام اور دیوار برلن کے گرنے کے بعد سے تاریخی پس منظر کو بیان کرتے ہوئے کہا سرمایہ داری نظام کے چیمپئنز نے اپنے انسٹیٹیوشنز کے ذریعے نظام کی فتح کا پروپیگنڈا پھیلایا اور جشن کا سماں باندھا مگر 2008 کے مالیاتی بحران نے تمام تھنک ٹینکس کی انٹیلیکچول نامرادی کو ثابت کیا اور اسکے بعد دنیا بھر میں نیا سیاسی بھونچال کھڑا ہو گیا۔ جس میں 2011 کے اندر انقلاب عرب بہار سے عالمگیر سطح پر عدم استحکام اور خلفشار کی کیفیتیں واضح ہو گئیں۔

نظام کے بحرانات در بحرانوں پر بات رکھتے ہوئے بحث کو آگے بڑھایا گیا اور وضاحت کی کہ امریکی ورلڈ آڈر اب ٹوٹنے کو پہنچ چکا ہے اور طاقتوں کا توازن تبدیل ہو گیا ہے۔ امریکہ کی زوال سے چین دوسرے بڑے طاقت کے طور پر ابھر آیا ہے جس نے امریکہ کی تاریخی کالونیوں میں اپنا اثر رسوخ بڑے پیمانے پر بڑھا دیا ہے۔ اور اس کے علاوہ روس کے مڈل ایسٹ کے اندر کردار پر بات رکھتے ہوئے کہا کہ روس اور ایران کی مشترکہ مداخلت سے مڈل ایسٹ میں امریکہ کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا اور امریکی حکمران تحفظاتی پالیسی جیسے غیر عالمگیر اقدامات کے جانب بڑھنے پر مجبور ہو چکے ہیں جس سے انکی داخلی کمزوری عیاں ہو جاتی ہے۔

بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے امریکہ کی افغانستان سے انخلاء پر تفصیلی بات رکھی گئی اور اسکے تاریخی پس منظر کو بیان کرتے ہوئے 1978 کے افغان سور انقلاب اور اسکے خلاف سی آئی اے کا آپریشن سائیکلون کی تاریخ بیان کی گئی اور اس کے ساتھ ڈالر جہاد کا پس منظر پیش کیا۔ سور انقلاب کی شکست کے بعد طالبانوں کا افغانستان میں برسراقتدار آنا اور بعدازاں امریکہ کے افغانستان پر چڑھائی کی تفصیل بحث میں شامل کی گئی۔ امریکہ کا افغانستان کے اندر جنگی دلدل میں پھنسنے اور داخلی طور پر انکی کمزوری کے سبب اسے انخلاء کا فیصلہ لینا پڑا اور فیصلہ ایک سال پہلے کا نہیں تھا بلکہ یہ ایک دہائی پہلے لیا گیا فیصلہ تھا جسے اب جا کر عملی جامہ پہنایا جا سکا۔
بحث میں اس پہلو پر بھی بات رکھی گئی کہ امریکہ اور چین کے درمیان مفادات کی سردجنگ ایک وجہ ہیکہ امریکہ جنوبی ایشیاء اور سنٹرل ایشیاء کو عدم استحکام کی طرف لے جانا چاہتا ہے جبکہ چین اپنے بڑے منصوبہ سلک روٹ کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے استحکام برقرار رکھنے کی تگ و دو میں ہے۔

افغانستان پر ایک بار پھر طالبانوں کے قبضے سے افغان عوام کے اندر بڑی بے چینی پیدا ہو چکی ہے اور خوف کے عالم میں وہ افغانستان سے نکل رہے ہیں جس میں لاکھوں افراد کی تعداد کا بلوچستان کا رخ کرنا متوقع ہے جس سے بلوچستان میں بڑے پیمانے پر ڈیموگرافی تبدیلی کے امکانات واضح ہو چکے ہیں۔ اور اس تناظر میں بلوچستان کی سیاسی، معاشی اور معاشرتی صورتحال کا تجزیہ پیش کیا گیا۔

بلوچستان کے تناظر کو اسکے معاشی و سیاسی صورتحال کے پس منظر میں بیان کیا گیا۔ موجودہ کیفیت کے اندر بلوچ سیاست منتشر اور ابہام کی راہ پر رواں ہے جس سے عوام تیزی کے ساتھ بیگانہ ہوتی ہوئی یکسر دوری پر جا کھڑی ہو گئی ہے اور یہی وہ خطرناک صورتحال ہے کہ دشمن قوتیں اپنے استعماری عزائم کو دوام بخشنے میں کوئی رکاوٹ محسوس نہیں کر رہے ہیں۔ بحث میں بیان کیا گیا کہ سرفیس پر موجود قومی قیادت کی عدم موجودگی سے عوام مایوسی اور بیگانگی کے مقام پر کھڑے ہیں۔ بحث میں وضاحت کی گئی اس وقت بلوچ قوم کو سب سے زیادہ ضرورت ایک انقلابی قیادت کی ہے جو عوام کی بکھری پرتوں کو جوڑ کر انہیں قومی قوت میں بدل دے۔

لیڈآف کے بعد سوالات کا سیشن رکھا گیا جس میں اہم سوالات رکھے گئے جس کے بعد کنٹریبیوشن کا سلسلہ شروع ہوا جس میں خلیفہ بلوچ نے بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے جی7 پر بات رکھی امریکہ کی سر پرستی میں بی ڈبلیو 3 منصوبہ پر بات رکھی جوکہ چائینیز بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ کے خلاف تیار کی گئی ہے۔

بعدازاں سوالات کی روشنی میں سیشن کو سم اپ کرتے ہوئے چیئرمین نے انقلابی فورسز کی تعمیر پر زور دیا اور بی ایس او کی اس میں کردار پر خصوصی بات رکھی۔

نیشنل اسکول کے دوسرے روز کا تیسرا سیشن اور مجموعی طور پر پانچواں سیشن تنظیم پر منعقد ہوا، جس پر لیڈآف مرکزی سیکریٹری جنرل چنگیز بلوچ نے دی جبکہ سیشن کو چیئر مرکزی سیکرٹری اطلاعات اورنگزیب بلوچ نے کیا۔

تنظیم پر بحث کا آغاز منظم ہونے کی انسانی تاریخ سے شروع کی اور بتایا کہ کیسے اپنی ضروریات اور مادی مجبوریوں کے تحت انسانوں نے سماج کی تشکیل کی جو مختلف ارتقائی مراحل سے ہوتے ہوئے جدید سیاسی جماعت تک پہنچی۔ تاریخی طور پر خاندان اور قبیلوں کا ابھرنا اور زراعت کے ساتھ ریاست کے ادارے کا ظہور میں آنا دراصل انسان کی بقا کی لازمی شرط تھی جس نے انسانی سماج کو مختلف نوعیت کی تنظیم میں ڈھالا اور اس کے ساتھ زبان، ثقافت اور مذہب بھی انسانی تنظیم کی خاص صورتیں ہیں جنہوں نے تاریخی طور پر انسانی بقاء اور بڑھوتری میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔

ذرائع پیداوار میں ترقی کے ساتھ تنظیم کی اشکال بھی جدت کی طرف بڑھی ہے اور سائنس کے ظہور کے ساتھ تنظیم کو بھی سائنسی بنیادیں دینے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں جس نے اپنا اظہار سیاست میں کیا، اور اسکی معیاری شکل پہلی انٹرنیشنل کی صورت میں دیکھی گئی، جسے باقاعدہ سائنسی بنیادیں کارل مارکس اور اینگلز نے کمیونسٹ مینی فسٹو کی صورت میں دی۔

جدید تنظیم بالخصوص محکوم طبقات کی برسر اقتدار طبقے کے خلاف جدوجہد میں ابھری ہے اور جس کا مقصد معمولی مفادات حاصل کرنے کی بجائے جامع انقلاب لانے کا ہے، جو نہ صرف سماج سے ظلم و استحصال کو ختم کرے بلکہ نظام کو تبدیل کرنے کیلئے انقلاب ممکن بنا کر برابری اور انصاف کو ممکن بنائے گا۔
ایسے میں سیاسی تنظیم کی سب سے اہم شرط اس کے نظریات ہیں جو تبدیلی کا نقشہ پیش کرتی ہیں اور جدوجہد کی سمت کا تعین کرتی ہے۔ اس کے ساتھ حکمت عملی کا فن بھی تنظیم کی اہم ترین کڑی ہے، جس کے بغیر دیرپا جدوجہد کو منظم کر پانا ناممکن امر ہے. سماجی نظریات جو اس سے پہلے مذہب، عقائد اور ثقافت کی صورت میں رہے تھے ان کی جدید سائنسی صورت ہے جو اس دنیا میں تبدیلی لانے کی خواہاں ہے اور نظام کی تبدیلی کی مکمل اہلیت رکھتی ہے۔

اس کے علاوہ سیشن میں مختلف سیاسی نظریات اور تنظیمی ڈھانچوں اور طریقہ کار پر مختلف مفکرین کے خیالات کو بھی زیر بحث لایا گیا اور ماضی کے انقلابات میں تنظیم کے کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ بعدازاں بی ایس او کے نظریات اور حکمت عملی پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی جس سے کیڈرز کو تنظیم سمجھنے میں مدد ملی اور سیشن کو سم اپ کی طرف بڑھایا گیا۔

سیشنز کے درمیان ساتھیوں نے انقلابی نظم پڑھے اور انقلابی ثقافت کا اظہار کرتے رہے جس میں درویش بلوچ، وحید انجم، شیہک بلوچ، ذکریہ بلوچ، سہیل بلوچ، مقصود بلوچ، میر وائس بلوچ اور دیگر ساتھیوں نے اپنے اشعار پڑھے۔

نیشنل سکول کے سیشنز کے اختتام پر بی ایس او کے مرکزی چیئرمین ظریف رند نے سکول کو سم اپ کرتے ہوئے تنظیمی ساتھیوں کو کامیاب سکول کے انعقاد پر مبارک باد پیش کی اور کہا کہ آج نوجوانوں کی محنت اور قربانیاں ایک بار پھر بی ایس او کی عظمت کو بحال کر چکی ہیں اور اس مقدس ادارے ایک مادرعملی و کیڈرساز تنظیم کے طور پر تعمیر کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جوکہ انقلابی قوت کے تعمیر کی جانب پہلا پڑاؤ ہے جبکہ منزل کی جانب سفر ابھی رواں ہے۔ انہوں نے اسکول اور تربیت سازی کی اس نئی روایت کو انقلابی کا نوید قرار دیا۔ اگر یوں ہی سفر جاری رہا تو منزل مقصود کا حصول یقینی ہوگا۔ انہوں نے آخر میں ساتھیوں کو تاکید کی کہ موجودہ غیرسنجیدہ رجحانات کو رد کرتے ہوئے بی ایس او کے کیڈرز صرف اپنی تربیت اور انقلابی قوتوں کی تعمیر پر فوکس کریں کیونکہ اسی عمل سے ہی قوم کو ایک بہتر مستقبل عطاء کیا جا سکے گا اور دھرتی کا قرض چکتا ہوگا۔
انقلابی نعروں کی گونج میں دو روزہ اسکول کا باقائدہ اختتام ہوا اور کیڈرز جوش و جذبات سے بھرے توانائی کے ساتھ نکلے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.