خیر بخش کے ساتھی الوداع

تحریر: فرید مینگل

لوگ کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ جس شخص میں سیاسی شعور نہیں وہ انسان ہی نہیں ہوتا۔ اب یہ ہوگٸیں دو انتہاٸیں جن پر میں اور میرا مخالف کھڑے ہیں۔ لیکن یہاں ایک نقطہ ہے، وہ نقطہ یہ ہے کہ ہم مان لیں کہ سیاست جو زاتی و گروہی مفادات کےلیے ہو وہ سیاست نہیں بلکہ ایک جتھے کا گیم پِلے ہے اور وہ شخص جو سیاست سے واقف نہیں اس میں اس کا قصور کم اور سیاسی ورکر کا زیادہ ہے کہ اس تک وہ پیغام وہ فراٸض نہیں پہنچا سکے۔ اور وہ جو یہ نیک کام سر انجام دیتے ہیں وطن و مٹی کا قرض اور اپنا قومی فرض لوگوں کو سمجھا دیتے ہیں وہی لوگ عالم، فاضل، پاک پوتر پیر پیغمبر اور سخی رہبر ہوتے ہیں اور یہی مقام بلوچ سماج میں سردار عطااللہ خان مینگل اور اس کے قبیل کے لوگوں نے کیا ہے۔

یہ وہ لوگ تھے جو اپنی پَگ کو ٹِکا و ایوب اور غاصب بھٹو و مشرف جیسے بیرونی یلغاریوں کے ھاتھ لگنے سے بچانے کی مسلسل کوشش میں لگے رہتے، دھرتی ماتا کی طرف گندی و استعماری نظر رکھنے والی ہر نظر ہر آنکھ کو پھوڑ ڈالتے چاہے اس کاوش میں شہید بالاچ و شہید اسد جان جیسے ان کے لختِ جگر قربان ہی کیوں نہ ہوں۔

یہ لوگ دوستیاں، دشمنیاں، رشتہ داریاں، یاریاں اور دلداریاں بھی وطن کےلیے کرتے تھے۔ یہ لوگ غاصب کو ڈنکے کی چوٹ پر کہتے تھے کہ ” اگر کوٸی مجھے غلام رکھنا چاہے گا تو میں اس کے منہ پر دس دفعہ تھوکونگا، میں بھاٸی بن کر ساتھ چلنے کو تیار ہوں مگر غلام بن کر ساتھ رہنے کو ھرگز تیار نہیں۔میرا جی چاہا تو میں مرنا پسند کرونگا مگر غلام رہنا ہرگز پسند نہیں کرونگا“

ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ اپنی حالت سے اپنی کمزوریوں سے واقف نہ تھے۔ وہ جانتے تھے دھرتی ماتا پر بسنے والی قوم کمزور ہے، وہ جانتے تھے مسلط حاکم طاقتور ہے اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ غاصب قوت انسانیت و تہذیب سے ناواقف ہے اور سامراج کا ایک ایسا لے پالک ہے جسے استعمار کی وہشت و درندگی، جبر و تسلط، ظلم و نا انصافی ناجاٸز زمین کے ٹکڑے کے ساتھ وراثت میں منتقل ہوٸی ہیں اور وہ اپنے آقاٶں کی راہ پر چل کر ان تمام تر جبری خصوصیات کا بے تہاشہ استعمال کرتا ہے مگر پھر بھی وہ علی الاعلان کہتے تھے ” ہم کمزور ہیں تم طاقتور ہو، تم ہمیں مار سکتے ہو، لیکن ہم تب تک مار کھاتے رہیں گے جب تک تمہیں مارنے کے قابل نہ ہوجاٸیں ہم جس دن مارنے کے قابل ہوگٸے اس دن ہم تمہاری بھی ایسی ہی درگت بناٸیں گے جیسی تم ہماری بنا رہے ہو۔

سردار عطااللہ خان مینگل بھی باقی تمام اقوام کے رہبروں اور وطنی سپوتوں کی طرح ہمیشہ وطن اور مٹی کی خاطر جان دینے والوں کے طرفدار رہے، اس نے یحییٰ کی آمریت کو جھیلا، ایوبی قراٰن خوری دیکھی، قاتل بھٹو کے مسلط جمہوریت کو دیکھا، شہید اسد جان کی جداٸی کو برداشت کیا، ضیا کی مذھبی انتہا پسندی جھیلی، بزدل و بے مغز مکار مشرف کی درندگی جھیلا، اپنے ساتھی شہید اعظم نواب اکبر خان بگٹی کے جسد خاکی کی توہین کو دیکھا، بالاچ کی جداٸی کو سہا، اپنے سیاسی رفیق و ہمدم دوست خیر بخش کی رخصتی دیکھی بلکہ کہنا تو یوں چاہیے کہ ”بلوچستان پر جبری یلغار سے لے کر بانک کریمہ کی شہادت تک ریاست کی مجموعی جبر کو پیر مڑد سردار عطااللہ خان مینگل نے براہ راست سہا“۔ مگر وہ گھبرایا نہیں، وہ پیچھے ہٹ کر سمجھوتہ نہیں کر گیا، جانا کہ اب عمر ساتھ نہیں دے رہا تو اس نے قوم و وطن کی ذمہ داریوں کو آنے والی پیڑی کو منتقل کر گیا۔ بڑے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں بھٸی۔ وہ کسی بھی قومی کام میں اپنا حصہ ڈال کر اس کے مالک نہیں بن بیٹھتے بلکہ اس کام کو وہ آگے منتقل کردیتے ہیں، ذمہ دار و توانا کندھوں کو اس کےلیے چُنتے ہیں اور سردار عطااللہ مینگل و اس کے رقیبوں نےایسا ہی کیا اور اس کام کےلیے مجھے اور آپ کو چُنا۔ اس نے بلوچ نوجوانوں کو چُنا۔

اس نے بلوچ نوجوان کو بارہا وطن و قوم کی ذمہ داریاں جان لینے اور ان ذمہ داریوں کو نبھانے کی تلقین کی۔ اس نے ہم سے مخاطب ہو کر کہا ” یاد رکھیں آپ تاریخ کے سامنے جوابدہ ہیں، کل کو مٶرخ آپ کی تاریخ آپ سے پوچھ کر نہیں لکھے گا بلکہ وہ آپ کے کردار کو سامنے رکھ کر تاریخ لکھے گا۔ تو خدارا اس سرزمین کے خاک کی خاطر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں جو آپ پر بحیثیت نٸی نسل قاٸم ہوتی ہیں۔

سردار عطااللہ خان مینگل ہمیں قومی فریضہ منتقل کرکے آرام سے بیٹھے نہیں رہے بلکہ بحیثیت تجربہ کار بزرگ وہ ساری عمر ہم پر نظر رکھتے رہے وہ ہمیں ہماری غلطیوں کا احساس دلاتے رہے، وہ ہمیں درست راہ پر چلنے اور غلطیوں کو دہرانے سے بچنے کی تلقین کرتے رہے۔ وہ ہم سے کہتے رہے کہ ” اگر لڑ سکتے ہو تو جی بھر کے لڑو، ورنہ اپنی ماٶں کو مت رلاٶ۔

تو آج ہم پر فرض ہے کہ ہم ان تین حاکم مخالف و وطن دوست رہنماٶں کی زندگیوں سے قیمتی ہیرے چنیں، ان کے تجربات سے سیکھیں، انہیں اپنی سیاست میں روزانہ کا سبق بناٸیں اور انہیں دہراتے رہیں۔ اور یہ فرض بھاری فرض ہے، یہ قرض وطن کا قرض ہے اور اس قرض و فرض کو نبھاتے رہیں۔۔۔۔۔۔نہ صرف نبھاتے رہیں بلکہ اس کو اسی طرح صحیح و سالم حالت میں اپنے آنے والی نسل تک پہنچاٸیں جس طرح سردار عطااللہ خان مینگل اور اسے ساتھیوں نے ہم تک پہنچایا۔ اس تسلسل کو ٹوٹنے نا دیں، ہمت نہ ہاریں، بڑھتے چلیں، وطن و قوم کے فرض و قرض کا احساس کرکے اپنا حصہ ایمانداری سے ڈالتے چلیں۔

سردار عطااللہ خان مینگل ایک فرد و سنڈیمنی سردار نہیں تھا۔ وہ ایک عوام دوست و وطن دوست رہبر تھا بزرگ تھا، اور جو وطن کا ہو اس پر اصل اور حقیقی حق بھی وطن کے نوجوانوں کا ہوتا ہے۔ اپنا یہی حق استعمال کرتے ہوٸے میں سردار اختر جان مینگل سے ایک مطالبہ کرونگا اور وہ مطالبہ یہ ہے کہ اوتھل یونیورسٹی کے وڈھ کیمپس کو وطن کے بزرگ قاٸد اور وطن کے سپوت سردار عطااللہ خان مینگل کے نام کر دیں۔ کیونکہ بلوچستان میں جدید تعلیم کی بنیاد رکھنے میں اصل ھاتھ اسی بزرگ وطن پرست رہنما کا تھا اور اس کے نام ایک یونیورسٹی ہونا لازم ہے ضروری ہے۔

وطن کے لاڈلے الوداع: ”کوہِ پھراس“ کی چوٹی ہمیشہ تمہاری وطن پرستی و قوم دوستی پر نازاں رہے گا۔ اور شہید نورا و گہرام کا مسکن ”کوہ پھب“ تاریخ میں تمہارے سرخرو ہونے کی گواہی دے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.