بی ایس او؛ نیشنل اسکول

وہید انجم

انسان کی شعوری کاوش ہے کہ وہ معروضی اور موضوعی دنیا دونوں کو ہم آہنگ کر کے کائنات، سماج ،آرٹ و سیاست کے ذریعے “نظم و ترتیب” پیدا کرنے کےلیے جمالیاتی اظہار و عمل سے کام لیتا ہے ۔ یہ سوال کہ سیاست کیا ہے ؟ کے کئی جوابات ملیں گے آسان الفاظ میں آپ یوں سمجھیں کہ

Public policy is politics

یا ایک ایسا فن سے معاشرے میں “ڈسپلن” قائم رہے ۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کی جانب سے اٹھائیس و انتیس اگست دو ہزار اکیس کو بمقام شال تنظیمی کیڈرز کی علمی و شعوری نشوونما کے لیے دو روزہ “نیشنل اسکول” کا انعقاد کیا گیا۔ بی ایس او کا یہ اسکول تقریباً دو الفاظ “ایجوکیشن” اور “آرگنائزیشن” پر محیط تھا ، ایجوکیشنل اِس لیے تھا کہ علمی تھا اور علمی اِس لیے کہ ساتھی تحقیقی مواد کو شعور کے احاطے میں لیے تخلیقی ججمنٹ سامنے لا رہے تھے ۔ جن پر مزید مکالمہ ہوسکتا ہے علم و دانش کے نئے نئے جزیرے دریافت ہو سکتے ہیں

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے اسٹوڈنٹس ایک آرگنائزیشن میں رہتے ہوئے اپنی مغلوب قوم اور اپنے بکھرے ہوئے سماج کو آرگنائیز کر رہے ہیں ۔ جس طرح شاعری میں میٹر اور قافیہ آرگنائزنگ کی خوبصورتی ہے اِسی طرح سماجی “نظم و نسق” کا حسن سیاست ہے ۔

اسکول کے پہلے روز “سیاسی و سماجی نظاموں کے ارتقاء” اور “محکوم اقوام و بلوچ قومی تحریک” کے موضاعات پر دوستوں کی طرف سے روشنی ڈالی گئی ۔

سیاسی و سماجی نظاموں کے ارتقاء پر تفصیلاً انسانی تاریخ و انسانی ارتقائی عمل کا سفر پیش کیا گیا کہ قدیم اشتراکی سماج سے انسان کس طرح ادوار بدلتے ہوئے دوسرے سماجوں کی بنیاد ڈالی، پیداواری تعلقات ذرائع پیداوار، پیداواری قوتوں، اور طریقِ پیداوار سے مل کر معاشی بنیاد سامنے لائی۔ جس پر سماج کے بالائی ڈھانچے رکھے گئے، آلاتِ پیداوار کی تبدیلی اور سماجی محنت کی تقسیم سے قدیم اشتراکی سماج نے غلام داری سماج کی راہیں کھولیں ۔

غلامانہ سماج نے مزید اونچ نیچ و امتیاز پیدا کرکے جاگیر داری نظام کی تشکیل کی جس میں جاگیردار طبقہ محنت کش طبقے کی بری طرح قوتِ محنت کا استحصال کرکے آسائش و عشرت کے سامان پیدا کرتا، اِسی نظام نے اپنے بطن سے سرمایہ داری نظام پیدا کیا جو کہ آج تک دنیا میں غالب معاشی نظام ہے۔

سرمایہ داری نظام اور اُس کی بلند ترین سطح (سامراج) اور محکوم اقوام کے درمیان تضادات دن بہ دن وسیع ہوتے جارہے ہیں محکوم اقوام کی مسلسل جدوجہد کیفیتی عمل سے ہو کر اُن کی کامیابی کا باعث بنے گی ۔

نیشنل اسکول کے پہلے دن کا دوسرا موضوع “محکوم اقوام و بلوچ قومی تحریک” تھا جس میں ساتھیوں نے بلوچ قوم اور بلوچ قومی تحریک کا دوسری محکوم اقوام کے ساتھ انقلابی تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ وطن اپنے وسائل ، جغرافیہ و تزویراتی حیثیت کے سبب قدیم تاریخ سے آج تک بیرونی حملہ آوروں اور قابضوں کے نشانے پر رہا ہے اور بلوچوں میں قوم دوستی و قومیت کی بنیاد پر تحریکی جذبات اٹھتے رہے ہیں ۔

بلوچ قومی تحریک کی منظم اور جدید شکل انگریز سامراج کے خلاف ابھری جس میں “ینگ بلوچ” اور “انجمن اتحاد بلوچاں” نے بلوچ قومی تحریک کو انقلابی انداز میں ترقی دی ۔ اِسی طرح بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) بھی بلوچ قومی تحریک کو نئی راہوں پر استوار کیا اور محکوم اقوام کی قومی تحاریک سے رشتہ جوڑ کر عالمی بنیادوں پر ایک انقلابی تنظیم کے طور پر سامنے آئی ۔

دو روزہ اسکول کے دوسرے دن دو نئے موضوعات زیرِ بحث لائے گئے جس میں “سیاسی اصطلاحات” اور “بین الاقوامی و بلوچستان تناظر” کا جائزہ لیا گیا ، دوستوں نے سماجی علوم میں مستعمل اصطلاحات پر اُن کے معنی و مفہوم اور تاریخی تناظر کے ساتھ اظہارِ خیال کیا ۔

” بین الاقوامی و بلوچستان تناظر ” پر بات کرتے ہوئے ایک طرف ساتھیوں نے امریکہ اور چین کی معاشی و سیاسی جنگ ، امریکہ کی سربراہی میں جی سیون کی نئی پالیسی(بی تھری ڈبلیو) اور چینی پروجیکٹ (بی آر آئی) کا محکوم اقوام و بلوچستان پر اثرات کا ذکر کیا تو دوسری جانب افغانستان سے امریکی انخلا اور طالبان حکومت کے نتائج اور چین کی آمد میں بلوچستان کا منظر نامہ پیش کیا گیا ۔

تنظیمی مقررین نے کہا کہ جنگ زدہ افغانستان سے لاکھوں مہاجرین بلوچستان میں آباد ہوتے رہے ہیں جس کی وجہ سے بلوچ سماج میں مختلف قسم کی ثقافتی، سماجی و معاشی بحرانات کا جنم ہوا ، چین بھی سی پیک کے نام پر آباد کاری کرکے بلوچ شناخت میں ڈیموگرافکلی تبدیلی لا رہا ہے جس کے لیے بلوچ نوجوانوں کو عالمی حالات و بلوچستان کا سائنسی انداز میں تجزیہ کرکے جدوجہد کرنا پڑے گی ۔

آخر میں کیڈرز کے لیے “لکھنے کی مشق و صلاحیت” پر ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا اور ساتھیوں کو مختلف تحریری ٹاسک دیے گئے ۔
بی ایس او کا دو روزہ “نیشنل اسکول” انہی اسباق کے ساتھ نیک تمناؤں اور بلند حوصلوں سے بغلگیر ہوکر اختتام پزیر ہوا ۔
بی ایس او بطورِ تنظیم لفظ (نظم) سے ہے جس کا مطلب ہے موتیوں کو لڑی میں پرونا ، اِس تنظیم کا تخیل، (آبجیکٹیفائیڈ) ورژن میں قومی زندگی کا بہترین نمونہ ہے جس کے لیے ڈسپلن بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

بی ایس او زندہ باد
بلوچ قوم زندہ باد
بلوچستان زندہ باد

Leave a Reply

Your email address will not be published.